دہشت گردی اور بھارتی جارحیت

پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے امریکی حکام کو بڑی وضاحت سے بتایا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کو کمزور کرنے کے لئے بھارت اپنی خفیہ چالیں چل رہا ہے، جس میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر مسلسل فائرنگ کا سلسلہ بھی شامل ہے۔ اگر بھارت کا یہی رویہ رہا تو پاکستان کی فوج کی توجہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں سے ہٹ سکتی ہے، جس کی وجہ سے پورے خطے کو نقصان ہو گا۔ جنرل راحیل شریف کی امریکی حکام سے بھارت کے رویّے کے خلاف شکایت بالکل بجا ہے۔ بھارت کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان میں دہشت گردی ختم نہ ہو سکے تاکہ پاکستان معاشی و سیاسی طور پر کمزور ہو جائے اور بھارت کی اس خطے میں بالادستی کو قبول کر لے۔ امریکی حکام نے جنرل راحیل شریف کی باتیں بڑے غور سے سنیں‘ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آپریشن ضرب عضب کی تعریف کرتے ہوئے پاکستان کی فوج اور عوام کی قربانیوں کی تعریف کی۔ انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے امریکی حکام کی ان غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کی کہ یہ فوجی آپریشن ہر قسم کی دہشت گردی تنظیموں کے خلاف کیا جا رہا ہے، جس میں حقانی نیٹ ورک بھی شامل ہے۔ امریکی حکام کو شبہ ہے کہ پاکستان کی فوج نے حقانی نیٹ ورک سے چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔ امریکی حکام کو شاید 
یہ ادراک نہیں کہ حقانی نیٹ ورک کا مرکز افغانستان کے اندر موجود ہے۔ یہ تمام لوگ افغانی ہیں۔ ان کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ ماضی میں کرزئی حکومت نے اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور امریکی امداد کے حصول کیلئے امریکی قیادت کو بتایا تھا کہ افغانستان کے اندر جو تخریبی کاروائیاں ہو رہی ہیں‘ اس میں حقانی نیٹ ورک کا ہاتھ ہے، حالانکہ کرزئی حکومت کے دور حکومت میں اور اب بھی افغانستان کے طول و عرض میں حقانی نیٹ ورک کے علاوہ افغان طالبان کے کئی گروپ افغان مرکزی حکومت کے خلاف جنگ کر رہے ہیں، جبکہ ان میں سے اکثر پوست کی کاشت میں بھی ملوث ہیں اور منشیات کی فروخت کے ذریعے اپنے ''جنگی‘‘ اخراجات پورے کرتے ہیں۔ افغان طالبان کے بعض گروپوں نے مرکزی شاہراہوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور ہر گاڑی سے باقاعدہ بھتہ لے کر وہاں سے گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ امریکی سی آئی اے‘ افغان طالبان‘ جس میں حقانی نیٹ ورک بھی شامل ہے‘ کی تمام تر حرکات و سکنات سے واقف ہے۔ نیز افغان دیہات کے تمام لوگ طالبان کی حمایت کرتے ہیں‘ جو انہیں ہر قسم کا تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ تمام تر مالی و مادی قوت رکھنے کے باوجود افغانستان کو فتح نہیں کر سکا ہے۔
دہشت گردی کی روک تھام کے سلسلے میں امریکہ کا تضاد معنی خیز ہے۔امریکہ سمیت اس خطے کے تمام ممالک‘ جس میں بھارت بھی شامل ہے، پاکستان پر دبائو ڈالا کرتے تھے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ہونا چاہیے اور وہاں موجود دہشت گردوں کے اڈوں کو ختم کیا جانا چاہیے۔ پاک فوج اور سیاسی قیادت خود بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنا چاہتی تھی، لیکن معروضی حالات اور وقت کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ بری فوج کے سابق سربراہ جنرل کیانی نے کئی مرتبہ امریکی حکام سے اپنی ملاقاتوں میں یہ واضح کیا تھا کہ پاکستان کی فوج شمالی وزیرستان کے علاوہ فاٹا کے دیگر علاقوں میں بھی فوجی آپریشن کرنا چاہتی ہے تاکہ دہشت گردوں کا صفایا کیا جا سکے، لیکن اس کے لئے پاکستان کو اپنے اندرونی حالات کا جائزہ لینا ہو گا، کیونکہ پاکستان کی فوج ابھی حال ہی میں سوات میں کئے جانے والے آپریشن ''راہ راست‘‘ سے فارغ ہوئی ہے۔ دہشت گردوں نے جب کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا تو پاک فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور پاکستان کی بقا و سالمیت اور خود مختاری کو قائم رکھنے کے لئے یہ فوجی آپریشن شروع ہوا‘ جس میں اب تک 1200 سے زائد مقامی اور غیرملکی دہشت گردوں کو مارا جا چکا ہے۔ نیز ان کے کئی اسلحہ خانوں کو بھی تباہ کیا جا چکا ہے، جبکہ بہت حد تک پاکستان دشمن ممالک سے ان دہشت گردوں کو خفیہ راستوں سے ملنے والی اسلحے کی کمک بھی بند کی جا چکی ہے۔ اگر پاک فوج آپریشن کے ذریعے ان کے خفیہ ٹھکانوں اور اسلحہ کے ڈپو کو ختم نہیںکرتی تو یہ عناصر پندرہ سال تک پاکستان کے اندر اور باہر دہشت گردی کا ارتکاب کرتے رہتے، جس کی وجہ سے اس پورے خطے کا مجموعی امن اور ترقی متاثر ہو سکتی تھی۔ شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں کی جانے والی فوجی کارروائی میں پاکستان کی فوج کے بہادر افسران اور سپاہی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ امریکہ سمیت عالمی کمیونٹی کو پاکستان کی فوج اور عوام کی قربانیوں کا احساس اور ادراک کرنا چاہیے اور بھارت کی پاکستان کے خلاف بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکنا چاہیے تاکہ پاکستان کی فوج یکسوئی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب جاری و ساری رکھ سکے۔ امریکہ کو جنرل راحیل شریف کی بھارت کے خلاف اس شکایت پر غور کرنا چاہیے اور بھارت کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے‘ بصورت دیگر پاکستان کی فوج اور سیاسی قیادت کو شمالی وزیرستان میں کئے جانے والے آپریشن سے متعلق اپنی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینا پڑے گا۔ نیز امریکہ کو بھی پاکستان سے متعلق اپنی دوغلی پالیسی کو ترک کرنا چاہئے۔ ایک طرف وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کوششوں کا معترف ہے تو دوسری طرف اس نے بھارت کی پاکستان کے خلاف جارحیت کو روکنے کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ جس سے یہ احساس پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف جو کچھ بھی کر رہا ہے، ممکنہ طور پر اسے امریکہ کا آشیرباد حاصل ہے۔ امریکی حکام کو اس بات کا احساس و ادراک ہونا چاہئے کہ اگر شمالی وزیرستان میں ملکی اور غیرملکی دہشت گردوں کا خاتمہ نہ ہو سکا، اور اس خطے کے ملکوں‘ جس میں بھارت بھی شامل ہے‘ پاکستان کے ساتھ اخلاقی تعاون نہ کیا تو پھر دہشت گردوں کے خلاف کامیابی کس طرح حاصل ہو سکے گی؟ ویسے بھی 2014ء کے بعد امریکی اور نیٹو کی فوجیں افغانستان سے چلی جائیں گی۔ صرف دس بارہ ہزار امریکی فوج افغانستان میں رہیں گی۔ اس صورت میںکیا افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے؟ امن صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب فوجی آپریشن ضرب عضب کو کامیاب بنایا جائے‘ جس میں اس خطے کے تمام ممالک کا واضح کردار ہونا چاہئے۔ پاکستان کو کمزور کرنے کی بھارتی کوشش خود اس کے لئے مستقبل میں تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ بھارت کے اندر بھی جنگی عناصر کی جانب سے علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، اس لئے بھارت کو سوچنا چاہئے کہ اس کا مفاد کس میں ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں