سارک کانفرنس: ایک تاریخی واقعہ

میںدیگر پاکستانی صحافیوں کے ہمراہ نیپال میں گیارہویں سارک کانفرنس کور کرنے گیا تھا۔ ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی نچلی سطح پر تھے۔ بی جے پی کی حکومت تھی، پاکستان میں پرویز مشرف اقتدار میں آچکے تھے۔ بھارت نے اپنے ملک سے پاکستان کے لئے فضائی راستہ بند کردیا تھا، اس لئے ہمیں کولمبو کے راستے پہلے بنگلہ دیش جانا پڑا اور وہاں سے کٹھمنڈو کے لئے روانہ ہوئے۔ انور محمود وفاقی سیکرٹری اطلاعات تھے جبکہ جنرل راشد قریشی‘ پرویز مشرف کے ترجمان۔ حسین حقانی بھی وہاں موجود تھے اور کوشش کررہے تھے کہ انہیں وزارت اطلاعات میں کوئی اہم منصب مل جائے، لیکن پرویز مشرف کو اُن پر اعتماد نہیںتھا بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ یہ شخص کسی کا دوست نہیں۔ انہوں نے اُن کے بارے میں ایک اور جملہ بھی کہا تھا جو یہاں لکھنا مناسب نہیں۔ جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے لئے اپنا فضائی راستہ بند کردیا تھا‘ اس کی وجہ 2001ء میں بھارت کی پارلیمنٹ پر ہونے والا حملہ تھا۔ اس حملے میں پانچوں دہشت گرد مارے گئے تھے۔ دہشت گردوں کے علاوہ مرنے والوں میںچھ پولیس اہل کار ، تین سکیورٹی گارڈز اور ایک مالی شامل تھا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیوںنے واجپائی کو یہ رپورٹ پیش کی کہ حملہ آورں کا تعلق پاکستان سے تھا‘ حالانکہ بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کشمیری مجاہدین نے کیا تھا۔ کشمیر‘ جہاں بھارت کی فوج اور پیرا ملٹری فورس کشمیری عوام پر بے پناہ ظلم ڈھارہی ہے اور ان کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے؛ چنانچہ ان کشمیری مجاہدین کا 
اصل ہدف پارلیمنٹ کے اندر گھس کر بعض سیاسی رہنمائوں کو قتل کرنا تھا۔ خصوصیت کے ساتھ وہ سیاسی رہنما جو مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج کی طرف سے کئے جانے والے ظلم کو جائز قرار دے رہے تھے۔ قبل ازیں سابق صدر پرویز مشرف نے جب وہ چیف آف آرمی سٹاف تھے، کارگل پر چڑھائی کر کے بعض چوٹیوں پر قبضہ کرلیا تھا‘ لیکن امریکی دبائو کی وجہ سے کارگل سے پاکستان کے پیرا ملٹری دستوں کو واپس آنا پڑا۔ کارگل کی جنگ تقریباً 52دنوں تک جاری رہی۔ بعض امریکی مبصروں کا خیال تھا کہ اگر امریکہ اس جنگ کو رکوانے کے لئے مداخلت نہ کرتا تو عین ممکن تھا کہ یہ لڑائی ایٹمی جنگ میں بدل جاتی۔ تب میاں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم تھے اور انہوںنے واشنگٹن جاکر صدر بل کلنٹن سے درخواست کی تھی کہ وہ اس جنگ کو رکوانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ اس جنگ میں طرفین کا خاصا جانی نقصان ہوا۔ کارگل جنگ سے متعلق پرویز مشرف نے کہا تھا کہ انہوںنے کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا کہ بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے پر مجبور کیا جائے تاکہ کشمیری فیصلہ کر سکیں کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ 
چنانچہ کارگل اور پھر بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد واجپائی کو بھارت کے آرمی چیف جنرل ایس پرمانا بھن نے مشورہ دیا کہ پاکستان کے خلاف روایتی جنگ کا آغاز کردینا چاہئے۔ واجپائی نے جنرل کی بات منظور کرلی جس کے نتیجہ میں بھارت کی پانچ لاکھ فوج پاکستان کے بارڈر کے قریب جمع ہوگئی۔ 1971ء کے بعد بھارتی فوج کا پاکستان کی سرحدوں کے قریب‘ یہ سب سے بڑا اجتماع تھا؛ چنانچہ پاکستان کو بھی دفاع کے لیے فوج کو سرحدوں کے قریب لانا پڑا۔ یوں دونوں فوجیں آمنے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔ بظاہر نظر آرہا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ کر دے گا جیسا کہ اس وقت کے وزیردفاع جارج فرنینڈس نے اخباری بیانات میں عندیہ دیا تھا۔ پاکستانی اور بھارتی فوجوں کا آمنے سامنے آنا امریکہ کے لئے تشویش کا باعث بنا۔ امریکی قیادت‘ جو پہلے ہی افغانستان میں القاعدہ کے خلاف برسر پیکارتھی اور پاکستان اس کی مدد کررہا تھا‘ کے لئے یہ نیا جنگی محاذ نا قابل قبول تھا‘ اس لئے امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں پر دبائو ڈال کر اس خطرناک صورتحال کو ٹھنڈا کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ورنہ یہ پورا خطہ روایتی جنگ کے دوران نیو کلیئر جنگ میں بدل جاتا اور جو تباہی وبربادی ہوتی اُسے سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کے بادل چھٹ جانے کے بعد یہ سارک کانفرنس 4تا 6جنوری 2002ء کو نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ہوئی تھی‘ جس کا میں نے ذکر کیا اور جس میں سارک ممالک کے تمام سربراہان نے شرکت کی۔ بھارت کی نمائندگی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کررہے تھے، جبکہ پاکستان کی نمائندگی پرویز مشرف نے کی۔ سارک کانفرنس کا جب ابتدائی اجلاس شروع ہوا تو وہاں موجود سینکڑوں لوگوں کی نگاہیں واجپائی اور پرویز مشرف پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ یہ دیکھنا اور سننا چاہتے تھے کہ بھارت اور پاکستان کے یہ دونوں رہنما اپنی تقریروں میںکیا کہیں گے، اور کیا یہ دونوں سربراہ اس خطے میں آئندہ جنگ نہ کرنے کا عہد کرکے اس خطے کو امن کا گہوارہ بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے؛ چنانچہ جب پرویز مشرف صاحب تقریر کرنے آئے تو انہوں نے بڑے واضح اور پرزور انداز میںکہا کہ پاکستان‘ بھارت کے ساتھ ہر سطح پر اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے، اور کشمیر سمیت تمام مسائل اور معاملات پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہے ، پاکستان امن پسند ملک ہے اور سارک کے تمام ممالک کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، تاکہ ہم سب مل کر اقتصادی ترقی کے ذریعہ اس خطے میں پائی جانے والی غربت ،محرومی اور تنگ دستی کو ختم کرسکیں۔ مشرف صاحب اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد اپنی نشست پر بیٹھنے کے بجائے سیدھے واجپائی کے پاس گئے اور ان سے ہاتھ ملایا۔ واجپائی صاحب کو یہ امید نہیں تھی کہ مشرف ایسا کریں گے کیونکہ جب وہ واجپائی کی نشست کے پاس پہنچے تو وہ اونگھ رہے تھے۔ مشرف کو قریب پاکر وہ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھے اور ان سے مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا۔ اس منظر کو دیکھ کر ہال میں موجود تمام لوگ کھڑے ہوگئے اور بہت دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ گیارہویں سارک کانفرنس کے اصل ہیرو پرویز مشرف تھے‘ جنہوں نے بھارتی وزیراعظم سے ہاتھ ملاکر انہیں پاکستان کی طرف سے امن کا پیغام دیا اور ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہ کرنے کا بھی عہد کیا۔ دوسرے دن سارک ممالک میں شائع ہونے والے تمام بڑے بڑے اخبارات نے پرویز مشرف کے واجپائی صاحب کے ساتھ ہاتھ ملا نے کو تاریخی مصافحہ قرار دیا اور لکھا کہ پرویز مشرف‘ بھارت کے ساتھ سیاسی تعلقات کے نئے دور کا آغاز کرنا چاہتے ہیں، تاکہ آئندہ ان دونوں کے درمیان جنگ جیسی صورتحال پیدا نہ ہوسکے؛ بلکہ بات چیت کے ذریعہ باہمی مسائل حل کئے جائیں۔ آج بھی میرے ذہن میں یہ منظر محفوظ ہے اور یاد دلاتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ مسائل کا حل نہیں‘ اس سے مسائل اور مصائب میں اضافہ ہوتا ہے؛ جبکہ امن ترقی اور انسانیت کو قریب لانے کا سبب بنتا ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں