آج سے نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں اٹھارہویں سارک کانفرنس شروع ہورہی ہے، جس میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف شرکت کر رہے ہیں۔ سیکرٹری خارجہ پہلے ہی کٹھمنڈو پہنچ چکے ہیں جہاں وہ سارک ممالک کی سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے جبکہ سرتاج عزیز سارک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ جیسا کہ میں نے سارک تنظیم کی گیارہویں سارک کانفرنس سے متعلق اپنے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ تھے، دونوں طرف کی فوجیں سرحدوں پر آمنے سامنے کھڑی تھیں اور بھارت نے پاکستان کے لئے اپنا فضائی راستہ بھی بند کردیا تھا، لیکن اس کانفرنس میں پرویز مشرف صاحب نے بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے تاریخی مصافحہ کر کے بہت حد تک دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور تلخیوں کو دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب وزیراعظم میاں نواز شریف اٹھارہویں سارک کانفرنس میں شرکت کے لئے نیپال پہنچے ہیں‘ اب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیں،بلکہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بھارت کی جانب سے فائرنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے‘ جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان دوری اور تلخی پیدا ہوگئی ہے۔
اس پس منظر میں بعض غیر جانبدار سفارت کا ر میاں نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور عین ممکن ہے کہ میاں صاحب اور نریندرمودی کے درمیان سارک تنظیم کی سائیڈلائن پر ملاقات ہوجائے۔ بھارت کی وزارت خارجہ کے حوالے سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے یہ عندیہ مل رہا ہے کہ نریندرمودی پاکستان کے وزیراعظم سمیت سارک تنظیم کے تمام سربراہان مملکت سے ملاقات کریں گے اور اس تنظیم کو زیادہ فعال بنانے کے لئے مشاورت بھی کریں گے۔ انہی خبروں میںیہ بھی بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم بھارت افغانستان کے صدر جناب اشرف غنی سے بھی ملاقات کرنے کے لئے بے چین ہیں‘ جن سے ان کی ابھی تک کوئی ملاقات نہیں ہوسکی ہے۔ خود اشرف غنی سارک تنظیم کی سائیڈلائن پر نریندرمودی سے ملاقات کرنے کے خواہش مند ہیں، کیونکہ وہ بھارتی وزیراعظم سے براہ راست ملاقات کرکے افغانستان کی موجودہ صورتحال اور پاکستانی قیادت سے ملاقات کے بعد ان کا اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور دونوں ملکوں کے درمیان معاشی وسیاسی تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت نے اب تک افغانستان میں2.6بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور آئندہ بھی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ قارئین کو معلوم ہے کہ افغان صدر جناب اشرف غنی نے حال ہی میں پاکستان ، چین اور سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں ان ملکوں کا تعاون چاہتے ہیں اور پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے افغان صدر کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لئے نئی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کو تیار ہیں، کیونکہ ایک پُرامن اور معاشی ترقی کرتاہوا افغانستان خود پاکستان کے مفاد میں ہے؛ نیز پاکستان نے افغان آرمی کو جدید تربیت دینے کی بھی پیش کش کی ہے، جسے قبول کرنا افغان قیادت پر منحصر ہے۔
26نومبر کو کٹھمنڈو میں شروع ہونے والی سارک کانفرنس کے آئندہ اس خطے میں کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ؟ کیا نواز شریف اور نریندرمودی کے درمیان متوقع ملاقات سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ختم ہوسکتی ہے؟ میراخیال ہے کہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔ نریندرمودی کے ذہن میں پاکستان کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو وہ نواز شریف کے ساتھ اس سال اپنی پہلی ملاقات میں باہمی تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں وہ مطالبات پیش نہ کرتے‘ جو انہوںنے کئے تھے اور جن میں ممبئی کا واقعہ بھی شامل تھا۔ اس وقت‘ جبکہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بھارت کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، تو کس طرح سارک کانفرنس کے دوروزہ اجلاس میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات معمول پر آسکتے ہیں ؟ ویسے بھی نریندرمودی کو ان کی وزارت خارجہ اور میڈیا کے سینئر ارکان نے مشورہ دیا ہے، کہ پاکستان کے ساتھ سارک تنظیم کے دیگر ممالک کے مساوی برتائو کیا جائے اور اسے علیحدہ سے کوئی خاص اہمیت نہ دی جائے جیسا کہ ماضی میں ہوتاچلا آیا ہے۔ خود نریندرمودی نے اپنے ایک بیان
میںکہا ہے کہ وہ سارک تنظیم کے تمام سربراہان مملکت سے ملاقات کریں گے‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس طرح اس سارک کانفرنس کی سائیڈ لائن پر اگر پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان مختلف امور پر بات چیت ہو بھی جاتی ہے‘ تو بھی فوری طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات نارمل نہیں ہوسکیں گے؛ تاہم یہ صورتحال ان دونوں ملکوں کے مابین امن کے حوالے سے ٹھیک نہیںہے، لیکن اس کا تدراک بھی کس طرح ہوسکتا ہے، جب ہمارے ملک کے اندرونی حالات کسی بھی لحاظ سے اچھے نہیں ہیں اور حکمران 2013ء کے عام انتخابات میںہونے والی مبینہ دھاندلی کے حوالے سے متنازع بن گئے ہیں۔ عوام میں ان کی سیاسی حیثیت شدید متاثر ہوئی ہے، جبکہ اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں ان کے زیادہ تر اقدامات سے پاکستان کو کسی قسم کا مالی یا سیاسی فائدہ نہیں پہنچا۔ توانائی سے متعلق تمام منصوبے کاغذی کارروائیوں تک محدود ہیں اور براہ راست پاکستان آنے والا غیر ملکی سرمایہ نہ آنے کے برابر ہے۔ دوسری طرف بیرونی قرضہ اتارنے کیلئے اور زیادہ قرضے لئے جارہے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مملکت کا کاروبار بیرونی قرضوں کی مدد سے چلا یا جا رہا ہے۔ ان معروضی حالات میں میاں صاحب کی پوزیشن علاقائی سطح پر بہت کمزور ہوگئی ہے۔