مقبوضہ کشمیر میں انتخابات، حقائق کیا ہیں؟

مقبوضہ کشمیر میںہونے والے ریاستی انتخابات کے کچھ اضلاع سے متعلق غیر حتمی غیر سرکاری نتائج سے ایک بھارتی تجزیہ کار نے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ گویا بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں انتخابات جیت رہی ہے اور آئندہ اس متنازع علاقے میں بی جے پی کی ہی حکومت ہوگی؛ حالانکہ ابھی بہت سے اضلاع کے انتخابات ہونے باقی ہیں ۔ یہ انتخابات جو پولیس اور فوج کی کڑی نگرانی میں ہورہے ہیں، چھ ہفتہ تک جاری رہیں گے جبکہ حتمی نتائج کا اعلان 23 دسمبر تک متوقع ہے ؛ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ نریندرمودی نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی پارٹی کو الیکشن جتوانے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ جموں میں جہاں ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد رہ رہی ہے، وہاں مذہب کو استعمال کیا گیا اور دیپاولی کا تہوار منایا اور وہاں مقیم ہندو برہمنوں کو یقین دلایا کہ وہ آئندہ بھی اس قسم کے تہوار اسی جوش و جذبے سے مناتے رہیںگے۔ لوگ سبھا کے انتخابات میں بھی بی جے پی نے مذہب کو استعمال کرنے کے علاوہ پاکستان دشمنی کے نعرے بلند کرکے انتہا پسند ہندوں کے ووٹ حاصل کئے تھے۔ اب مقبوضہ کشمیر میں اسی حکمت عملی پر عمل کیا جارہا ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا ہوں کہ بی جے پی کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں کوئی بڑی کامیابی مل سکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کبھی بی جے پی بحیثیت پارٹی نہ تو فعال رہی ہے اور نہ ہی اس کی پارٹی کا کوئی دفترتھا، کانگریس اور نیشنل کانفرنس ساتھ مل کر حکومتیں تشکیل دیتے رہے تھے، لیکن جب سے نریندرمودی اقتدار میں آیا اس کی زیادہ تر توجہ مقبوضہ کشمیر پر رہی ہے جہاں اس 
نے دو مرتبہ دورہ کیا ہے، اس میں سیاچن کا دورہ بھی شامل ہے۔ مودی نے اپنے مقبوضہ کشمیر کے دورے کے دوران حریت کانفرنس کے کئی رہنمائوں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں اور انہیں اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی۔ ایک دو حضرات جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میںبھارت کے ناجائز تسلط کے خلاف جدوجہد کی ، ان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔ اس میں ایک خاتون بھی ہیں جو اپنی جگہ بڑی تعجب خیز بات ہے لیکن اس کے باوجودمقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریت کے علاقوں میں بی جے پی کے لئے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی اکثریت بی جے پی کو ووٹ دے گی۔ مزید برآں نریندرمودی نے اپنے بعض رفقا جس میں آر ایس ایس بھی شامل ہے ، جموں میں ہندوئوں خاص طور پر برہمنوں کو بڑی تعداد میں آباد کیا ہے جو اب بی جے پی کے ووٹرزبن چکے ہیں۔ لداخ میںبھی یہی حکمت عملی اختیار کی گئی جہاں دہلی میں پناہ گزین بدھ مت کے ماننے والوں کو بڑی تعداد میں یہاں لاکر آباد کیاگیا۔ ان سے بھی بی جے پی کے لئے ووٹ لئے جائیں گے۔ اس طرح مودی مقبوضہ کشمیر میں آبادی کی ہیئت ترکیبی (Demographic Profile) تبدیل کرکے مقبوضہ کشمیر میں اپنی حکومت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دورہ کشمیر میں یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت جو اس کو بھارتی آئین کی شق 370کے تحت حاصل ہے اس کو ختم کرکے 
بھارت میں ضم کرلیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوگیا تو کشمیر کا مسئلہ مزید سنگین ہوجائے گا۔ اس اقدام سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میںغیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہر چند کہ حریت کانفرنس نے مقبوضہ کشمیر میںعام انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے ، لیکن دوسری پارٹی پی ڈی پی انتخابات میںحصہ لے رہی ہے جس کی مسلم علاقوں میں کچھ مقبولیت ہے ، ممکن ہے اگر بی جے پی کو غیر متوقع طورپر زیادہ ووٹ مل جائیں تو مقبوضہ کشمیر میں ایک مخلوط حکومت بن سکتی ہے جو مقبوضہ کشمیر کے عوام کی بہبود کے سلسلے میں یکسوئی سے کام نہیں کرسکے گی ، نہ اس قسم کی بننے والی حکومت مقبوضہ کشمیر سے بھارت کی سات لاکھ فوج کو بیرکوں میں بھجنے کے لئے کسی قسم کا موثردبائو ڈال سکے گی اور نہ ہی کشمیریوں کے حقوق کے لئے لڑی جانے والی جدوجہد میں کوئی کمی واقع ہوگی۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ستمبر میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے صورت حال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ سرینگر کے بیشتر علاقوں میں ابھی تک سیلاب کا پانی کھڑا ہے، مقامی آبادی کا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے جبکہ مرکز کی جانب سے سیلاب کے متاثر ین کے لئے آنے والی امداد ناکافی ہے بلکہ کرپشن کی نذر ہوگئی ہے۔ اس پس منظر میں ووٹ پڑنے کا تناسب زیادہ نہیں ہوگا۔ 
ہندوآبادیوں میں بی جے پی کو ووٹ اس لئے زیادہ پڑیں گے کیونکہ نریندرمودی نے ان کے مذہبی جذبات کو اچھال کرکے ووٹرز کو اپنا ہمنوا بنایا ہے۔ اگر بی جے پی اور پی ڈی پی اور دیگر آزاد امیدواروں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں چالیس سیٹیں حاصل کرلے گا تو ایک ملی جلی حکومت بن سکتی ہے، لیکن جیسا کہ میں نے بالائی سطور میںلکھا ، مقبوضہ کشمیر میں بننے والی ایسی حکومت ناقص وناکارہ ثابت ہوگی۔ حریت کانفرنس ، نیشنل کانفرنس اور انڈین کانگریس کا طویل عرصہ سے مقبوضہ کشمیر کے معالات میں عمل دخل رہا ہے، بی جے پی اس ریاست میں ایک نووارد ہے اور اس کے ہاتھ بابری مسجد کے انہدام کے موقع پر ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، گجرات میں بھی بی جے پی نے نریندرمودی کی وزارت اعلیٰ کی قیادت میں مسلم کش کھیل کھیلا تھا جس میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی مرکز میں حکومت محض مسلمان اور پاکستان دشمنی کے نعرے سے بنی ہے ، مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اس کا ایجنڈا یہ ہے کہ وہاں کسی نہ کسی طرح انتخابات جیت کہ مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی شمع کو بجھا دیا جائے اور پاکستان کو کشمیری عوام کی اخلاقی ، سیاسی وسفارتی حمایت کرنے سے کسی طرح روک دیا جائے۔ نریندرمودی کا یہ خطرناک ایجنڈا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام ان حقائق سے اچھی طرح واقف ہیں اس لئے حریت کانفرنس نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے جس کے نتیجے میں ٹرن آئوٹ بہت کم ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں کل 82 نشستیں ہیں، اگر کسی پارٹی نے 40 سیٹیں حاصل کرلیں تو وہ حکومت بنا سکے گی ۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں موجودہ سیاسی ومعاشی حالات کے پیش نظر کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس دونوں مل کر انتخابی مہم چلا رہے ہیں، ان کے امیدوار بھی الیکشن جیت کر آسکتے ہیں ، اس صورت میں بی جے پی ان کے ساتھ الحاق نہیں کرسکے گی۔ان انتخابات کے بارے میں یٰسین ملک نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر کشمیریوں کا ہے اور ان نام نہاد انتخابات سے کشمیر ہندوستان کا نہیں ہوجائے گا۔ اگر بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ ان انتخابات کے ذریعے وہ کشمیرکو فتح کرسکتی ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی خام خیالی ہوگی ۔ علی گیلانی نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، یہ کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا ہے اور نہ ہوگا۔ شبیر شاہ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد انتخابات کرانے سے کشمیریوں کے مصائب میں کمی نہیں آئے گی، سیلاب کی تباہ کاریاں بی جے پی کی مرکزی حکومت کو منہ چڑا رہی ہیں اور عوام اس کے خلاف ہر روز احتجاج کررہے ہیں؛ تاہم ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ یہ انتخابات منگل کے روز سے شروع ہوئے ہیں جو دسمبر تک جاری رہیں گے۔ اس دوران بہت کچھ ہوسکتا ہے؛ تاہم بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں کسی بھی عنوان سے اپنی من مانی نہیں کرسکے گی اور نہ ہی کامیاب ہوسکے گی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں