بھارت کے انتہاپسند سیاست دان‘ خصوصاً جن کا تعلق بی جے پی سے ہے‘ نریندرمودی کو مسلسل مشورے دے رہے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے اُسی فارمولے پر عمل کیا جائے جو انہوں نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے اپنی پہلی ملاقات میں پیش کیا تھا ، جس میں سرفہرست ممبئی کا واقعہ تھا، بعد میں دہشت گردی کے انسداد کیخلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کا عہد! ظاہر ہے پاکستان ممبئی کے واقعہ سے متعلق اپنے انداز میں کام کررہا ہے، اور پاکستان کی عدالتیں بھی اس سے متعلق رجوع کررہی ہیں؛ تاہم ممبئی کی عدالت نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں حافظ سعید کو ممبئی میںہونے والے دہشت گردی کے واقعہ سے بری کردیا ہے، لیکن اس فیصلے سے متعلق بھار ت کا میڈیا عدالتی فیصلے کے خلاف مسلسل شور وغوغا مچارہا ہے، جس کے نتیجہ میں پاک بھارت تعلقات میں ہنوز بہتری نہیں آئی۔ بھارتی میڈیا کا اگر یہی رویہ رہا تو آئندہ بھی ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے امکانات بہت کم نظر آرہے ہیں۔ حقیقت میں پاک بھارت تعلقات میں رخنہ ڈالنے میں بھارتی میڈیا سب سے آگے ہے۔ اس ضمن میں بھارت کے ذمہ دار اور غیر جانبدار سینئر صحافیوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارتی میڈیا کے جارحانہ رویے کی وجہ سے بھی دونوں کے درمیان باہمی تعلقات میں بہتری نہیں لائی جا سکی۔ دوسری طرف پاکستان کا میڈیا بھارت کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں نرم گوشہ رکھتا ہے، بلکہ وہ حقیقی معنوں میں ان دونوں ملکوں کے مابین اچھے ہمسائیگی کے تعلقات کا خواہش مند ہے۔ جس کا اظہار پاکستان کے موقر اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین سے ہوتارہتا ہے، لیکن پاکستانی میڈیا کی دونوں ملکوں کے مابین قیام امن کی خواہش پر نہ تو بھارتی حکومت نے توجہ دی ہے اور نہ ہی وہاں کی سول سوسائٹی نے‘ جس کے نمائندے اکثر پاکستان یاترا پر آتے رہتے ہیںاس روئیے نے پاکستانی میڈیا کو کو سخت دھچکا پہنچایا ہے۔
دراصل بھارتی میڈیا بی جے پی کا ہمنوا اور ہم زبان بن کر بھارت کی جنوبی ایشیا میں بالادستی کے لئے زور لگا رہا ہے‘ جیسا کہ یہ مناظر حال ہی میں ختم ہونے والی سارک کانفرنس میں دیکھے گئے تھے۔ بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف لکھنے والے صحافیوں کو من مانے انداز میں نوازر ہی ہے جواکثر پاکستان کی'' کمزوریوں‘‘ کو بھارتی اخبارات میں شائع کرتے رہتے ہیں، خصوصیت کے ساتھ دہشت گردی اور پاکستان کے اندرونی حالات سے متعلق بھارتی عوام کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ پاکستان ناکام ریاست بن چکا ہے، حال ہی میں بھارت کے اخبار دکن کرانیکل نے خبر شائع کی ہے جس میں واضح طورپر لکھا ہے کہ پاکستان کا ایک ادارہ بہت جلد بھارت کے بعض اقتصادی مراکز پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ اس خبر کو بھارت کے دیگر اخبارات نے بھی شائع کیا ہے تاکہ پاکستان کو بد نام کیا جاسکے، حالانکہ خود بھارت کے اندر پرورش پانے والے دہشتگرد ایسی کارروائیاں کر بیٹھیں تو ان کا الزام بھی پاکستان پر عائد ہوگا۔ اس خبر کو مزید پھیلانے اور بغیر کسی ثبوت اور وجہ کے بد نام کرنے میں آر ایس ایس کے مرکزی رہنما موہن بھگوت کا ہاتھ ہے جو اس وقت بھارت کی مختلف ریاستوں کا دورہ کرکے انتہا پسند ہندوئوں کو پاکستان کے خلاف مشتعل کر رہا ہے، بلکہ اُس کے خلاف جنگی محاذ کھڑا کررہا ہے۔ یہ سب کچھ وزیراعظم بھارت نریندرمودی اور ان کے ہم خیال انتہا پسند ساتھیوں کے اشارے پر ہورہا ہے۔ بھارت کا میڈیا بھارتی عوام میں ایک اور گمراہ کن تاثر پھیلارہا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ''پاکستان کے خلاف جنگ ناگزیر ہوچکی ہے‘‘ حالانکہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان پرامن ملک ہے وہ اپنے کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف‘ جس میں بھارت بھی شامل ہے
جارحانہ عزائم نہیں رکھتا بلکہ ہر ملک کے ساتھ معاشی تعاون کے ذریعہ اس خطے میںامن اور ترقی کا خواہش مند ہے تاکہ یہاں عوام میں پائی جانے والی غربت ، محرومی، اور بیماریوں کا ازالہ ہوسکے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا بلکہ نواز شریف نے نریندرمودی کی رسم حلف برداری میں خود شرکت کرکے بھارتی عوام اور بھارتی میڈیا کو پاکستان کی جانب سے امن کا پیغام دیا، لیکن پاکستان کی ان نیک خواہشات کا مثبت جواب نہیں ملا۔ بلکہ بھارت کی حکومت نے 23اگست کو خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کو موخر کر کے جان بوجھ کرباہمی تعلقات میںکشیدگی پیداکرنے کی کوشش کی، بھارت کی حکومت کا یہی رویہ سارک کانفرنس میں دیکھا گیا تھا،بھارتی میڈیا اور بھارتی حکومت کا یہ انداز آئندہ جنوبی ایشیا کو کسی بڑے حادثے سے دوچار کرسکتا ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جو کسی بھی وقت استعمال ہوسکتے ہیں حالانکہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میںپہل نہ کرنے کا عہد کیا ہوا ہے، بلکہ ایٹمی ہتھیاروںکا استعمال نہیں ہونا چاہئے؛ تاہم پاکستان کے لئے بھارت کی جانب سے پریشانی کا ایک
بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اس کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ بھارت کی نئی حکومت کی انتہا پسند جنونی سوچ کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پاکستانی دشمن عناصر کی بھر پور مدد کررہی ہے۔ کوئٹہ میںہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں بھی ''را‘‘ کا ہاتھ ہے اسی طرح فاٹا میں اس کے ایجنٹ پاکستانی فوج کے آپریشن ضرب عضب کو ناکام بنانے کیلئے پشاور سمیت کئی جگہ دہشت گردی کرکے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کررہے ہیں حالانکہ فاٹا میں تحریک طالبان کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی سے خود بھارت کو بھی بہت بڑا خطرہ ہے، چنانچہ ''را‘‘ اور بھارتی میڈیا کو اپنے ملک کے حالات پر غور کرتے ہوئے اس میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ پاکستان پر الزام تراشی‘ جو بعد میں ان دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے مزید دور لے جائے گی۔ بھارتی میڈیا کو اس تصور کو زائل کردینا چاہئے کہ پاکستان ایک ناکام یا پھر کمزور ریاست ہے۔ پاکستان اپنے تمام تر اندرونی مسائل کے باوجود طاقتور ملک ہے جو بھارت کی جانب سے کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی استعداد ، اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت جنوبی ایشیا کا بڑا ملک ہے لیکن اس کی سوچ میںنہ تو بڑا پن اور نہ ہی انسانیت سے معمور نکھار جو کسی بڑے ملک کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے؛ تاہم پاکستان اپنے تئیں بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر اچھے تعلقات قائم کرنے کا خواہش مند ہے۔