ساکھ کا سوال

اسلام آباد میں پاپولیشن ایسوسی ایشن آف پاکستان (PAP) کے سیمینار سے خطاب کرنے کے بعد شہنازوزیر علی (سابق وفاقی وزیر) ، چائے کے وقفہ کے دوران میرے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا پی پی پی ملک بھر میں خصوصاً پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرلے گی؟ میں نے کہا موجودہ سیاسی تناظر میں جبکہ پورے ملک میں عمران خان کا طوطی بول رہا ہے، پی پی پی عوام میں ماضی جیسی مقبولیت حاصل نہیں کرسکے گی ۔ وہ میرا جواب سن کر خاموش ہوگئیں لیکن تھوڑی دیر بعد پھر پوچھا:اس کی بنیادی وجوہ کیا ہیں؟ میں ان کی سادگی پر مسکرایا اور انہیں بتایا کہ 2008ء سے 2013 ء تک پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، جناب آصف علی زرداری صدر تھے، ان کے دور میں کرپشن کے جو دروازے کھلے اس کی وجہ سے ملک کے تمام کلیدی ادارے تباہ ہوئے اور کرپشن کلچر کو اپنا کر پاکستان کو معاشی طور پرکمزور کرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ پاکستان کے مختلف صوبوں میں جہاں پی پی پی کی حکومت تھی یا پھر مخلوط حکومت بنائی گئی تھی، وہاں سرکاری ملازمتوں کے امیدواروں سے مبینہ طور پر لاکھوں روپے رشوت لینے کے بعد نوکریاں دی گئیں۔ سندھ میں یہ لعنت سب سے زیادہ تھی جہاں میرٹ کا کوئی وجود تک نہ تھا۔ یہی بنیادی وجوہ ہیں جن کے باعث پی پی پی کا دوبارہ عوام میں مقبول ہونا نظر نہیں آتا۔ اب پی پی پی عوام کی نگاہوں میں بے توقیر ہو چکی ہے۔ مزید براں پی پی پی عہد کے دو وزرائے اعظم جناب یوسف رضا گیلانی اور پرویزاشرف نے مبینہ طور پر بے لگام کرپشن کا ارتکاب کرکے جہاں پیپلز پارٹی کو بدنام کیا، وہاں بے لوث اور مخلص کارکن اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے سلسلے میں دھکے کھاتے رہے ۔ ان کی دلجوئی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ 
بھٹو مرحوم کی پی پی پی جو نظریاتی پارٹی تھی، اب ایک کرپٹ پارٹی میں بدل گئی ہے۔ بڑے بڑے رہنماؤں کے دامن کرپشن اور اقربا پروری سے داغدارہیں۔ پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن یا تو اپنا الگ گروپ بناکرآئندہ انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کریں گے یا پھر پیپلز پارٹی سے کنارہ کش ہوکرکسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیارکرلیں گے۔ دراصل بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی ڈسپلن ختم ہوگیا۔آصف زرداری صاحب نے ایسے افرادکو ہم نشین وہمنوا بنالیا جو بی بی کے زمانے میں پارٹی اور اقتدار سے بہت دور تھے ؛ بلکہ انہیں بی بی نے جان بوجھ کر دور رکھا ہوا تھا۔ لیکن مرحومہ کے دارفانی سے چلے جانے کے بعد پیپلز پارٹی میں ہر سطح پرکرپشن کاکلچر فروغ پارہا ہے۔ آج کاسہ لیسی کرنے والے، بے دریغ جھوٹے بولنے والے، موقع پرست عناصرآصف زرداری کی قیادت میں پارٹی پرغلبہ حاصل کرچکے ہیں۔ دوسری طرف پارٹی کو عوام میں دوبارہ مقبول و محترم بنانے کے لیے نہ توکوئی منشور ہے نہ ہی وہ پرکشش نعرے جس کی بنا پر بھٹو مرحوم نے انہیں اپنے قریب کیا تھا۔ 
موجودہ معاشرتی اور سیاسی حالات میں عوام کی اکثریت خصوصاً نوجوانوںکی ترجمانی عمران خان کررہے ہیں جس کا اظہار دھرنوں میں ان کی بھرپور شرکت سے ہوتا ہے۔ دراصل پاکستان کے عوام موجودہ بے ثمر، بے مراد اور بے مقصد استحصالی نظام سے نہ صرف اکتا گئے ہیں بلکہ اسے تبدیل کرنے کے لیے پُرامن جدوجہد بھی کررہے ہیں۔ شہری سندھ میں جاگیرداروں، وڈیروں اورکرپٹ عناصر کے خلاف ایم کیو ایم کی جدوجہد بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ؛ بلکہ اس نے شہری سندھ کے علاوہ دیہی سندھ میں بھی فرسودہ استحصالی نظام کے خلاف زبردست بیداری پیدا کی ہے۔ پاکستانی عوام آہستہ آہستہ نظام میں تبدیلی کے حق میں ایک جگہ جمع ہورہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر جناب سراج الحق بھی پاکستان کے موجودہ گلے سڑے نظام کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔ ان کی پُرجوش تقریروں میں بھی موجودہ سیاسی نظام سے بیزاری نظر آرہی ہے۔ وہ بھی ایک ایسی تبدیلی لانے کی سعی کررہے ہیں جس میں ظلم کی گنجائش نہ ہو، عوام کو آسانی سے انصاف مل سکے تاکہ ان کے دلوں میں سماجی تحفظ کا احساس اجاگر ہوسکے اور پاکستان سے محبت بھی۔
ان معروضی، سیاسی و سماجی حالات میں پی پی پی عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال نہیں کرسکے گی، خصوصیت کے ساتھ پنجاب میں جہاں عمران خان اور مسلم لیگ (ن)کے عوام میں واضح اثرات اور ہمدردیاں موجود ہیں۔ پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو ابھی سیاست کی پُرخار وادی میں نووارد ہیں، انہیں پاکستان کی سازشوں سے بھری سیاست کو سمجھنے کے لیے طویل وقت درکار ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں جس انداز میں اپنے مخالفین کو للکارتے ہیں، وہ ان کو زیب نہیں دیتا۔ جو لوگ بھی بلاول بھٹوکو اس قسم کے سیاسی درس دے رہے ہیں، وہی ان کے سب سے بڑے دشمن اور خوشامدی عناصر ہیں۔ 
بلاول بھٹو سے دیہی سندھ میں محبت اور عقیدت رکھنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ بینظیر بھٹو کے لخت جگر ہیں۔ پیپلز پارٹی کی ساکھ خراب ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے دور اقتدار میں پاکستان کے عوام کی تمام تر خواہشات کے باوجود بلدیاتی انتخابات نہیںکرائے اور نہ ہی نچلی سطح پر عوام کو اقتدار منتقل کرنے کا سوچا، اس وجہ سے پاکستان مسائل کے سمندر میں گھر گیا۔ اگر پیپلز پارٹی اپنے سابق دور میں بلدیاتی انتخابات کرادیتی تو اس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوسکتا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔ اس وقت پیپلز پارٹی سکڑاور سمٹ کر سندھ تک محدود ہوچکی ہے۔ ہر چندکہ سندھ اسمبلی میں اس کی واضح اکثریت ہے لیکن کارکردگی انتہائی ناقص اور خراب ہے، یہاں تک کہ ایک سروے کے مطابق چاروں صوبوں میں صرف سندھ کی حکومت اپنی کارکردگی کے لحاظ سے بدترین ریٹنگ حاصل کرچکی ہے۔ تھر میں قحط سالی، بچوں کے مرنے کے واقعات نے بھی پیپلز پارٹی کی ساکھ بری طرح متاثر کی ہے۔ اس لیے عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا یہی وہی انقلابی پارٹی ہے جس نے 1971ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوجانے کے بعد بھٹو مرحوم کی قیادت میں پاکستان کی ازسر نو تعمیر کی تھی اور پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مستحکم بنانے کے لیے نیوکلیئر پروگرام شروع کیا تھا۔ یقینا اب یہ وہ نظریاتی اور انقلابی پارٹی نہیں ہے ۔ جیساکہ میں نے بالائی سطور میں لکھا، جہاں پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر مبینہ طور پرکرپشن کے غیر معمولی الزامات اخبارات کی زینت بنتے ہوں، نیب میں مقدمات بھی چل رہے ہوں، اس کی عوام میں ساکھ دوبارہ کس طرح بحال ہوسکتی ہے۔ 
تاہم یہاں یہ بات لکھنا بے حد ضروری ہے کہ پاکستان میں اب نعروں کی سیاست نہیں چلے گی۔ عوام خصوصاً نوجوان اپنے معاشی و سماجی حقوق چاہتے ہیں ۔ ایک ایسا معاشی نظام جس میں میرٹ کی بنیاد پر نوکریاں مل سکیں، نہ کہ سفارش اور رشوت کے ذریعے جو گزشتہ برسوں میں پی پی پی کا کلچر رہا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں