میں نے مقبوضہ کشمیر میںہونے والے ریاستی انتخابات کے بارے میں اپنے کالموں میں لکھا تھا کہ یہ نمائندہ انتخابات نہیں ہیں کیونکہ جموںکشمیر کے عوام کی اکثریت ان میں حصہ نہیں لے رہی ہے‘ حریت کانفرنس نے اس کا مکمل بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ مزیدبرآں یہ انتخابا ت کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کا نعم البدل بھی ثابت نہیں ہوسکتے کیونکہ ان میں بڑی وضاحت سے لکھا گیا ہے کہ کشمیر میں عوام کی رائے معلوم کی جائے کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ یہ صرف استصوابِ رائے کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے، لیکن بھارت ایسا نہیں کرنا چاہتا؛ حالانکہ آنجہانی پنڈت جوا ہر لال نہرو نے 1956ء تک اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی کمیونٹی کو یہ یقین دلاتے رہے کہ وہ اپنی زندگی میں استصوابِ رائے کراکر اس مسئلے کو حل کردیں گے، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے‘ بعد میں ان کا ارادہ بدل گیا جس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اب تک مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنی آزادی کی خاطر ایک لاکھ افراد کی قربانیاں دے چکے ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں‘ بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج کے ظلم وتشدد کو برداشت کررہے ہیں۔ اب نریندرمودی کے وزیراعظم بننے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں زمینی حقائق کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ریاستی طاقت کے بل بوتے پر ہونے والے ان جعلی انتخابات کو مودی سرکار ہر قیمت پر جیتنے کی کوشش کررہی ہے، اس لئے مودی ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں موجود ہیں اور براہ راست ان انتخابات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے جموں میں الیکشن ریلی سے خطاب کے دوران حسب عادت پاکستان پر الزام لگایا کہ مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج کی چوکی پر حملہ پاکستان نے کرایا تھا جس میں تقریبا دس بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ان حملوں کا مقصد ریاستی انتخابات کو سبو تاژ کرنا ہے۔ پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان حملوں سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے، کشمیری نوجوان بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کے خلاف ''تنگ آمد بہ جنگ آمد‘‘ کے مصداق اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ نریندرمودی جب سے اقتدار پر براجمان ہوئے ان کے دل میں پاکستان اور کشمیر کھٹک رہا ہے، ان کا بس نہیں چل رہا کہ کسی طرح پاکستان پر حملہ کردے اور جنوبی ایشیا کو ایک ختم نہ ہونے والی تباہ کن جنگ میں جھونک دے۔ دوسری طرف ان جعلی ریاستی انتخابات کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس جو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت اُسے حاصل ہے اور جس کی وجہ سے اس کا بھارت سے ایک الگ علیحدہ تشحص قائم ہے، اسے ختم کرکے بھارت میں ضم کرلیا جائے۔ نریندرمودی اور بھارتی فوج کے سربراہ کی باہمی مشاورت سے یہ سب کچھ وہ مشن 44 کے تحت کرنا چاہ رہے ہیں جس کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حریت کانفرنس نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے جبکہ مسلمانوں کی اکثریت نے ان جعلی انتخابات سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے؛ تاہم مقبوضہ کشمیر میں کچھ ایسی پارٹیاں بھی موجود ہیں‘ جیسے پی ڈی پی‘ جو انتخابات میںحصہ لے رہی ہے ، لیکن اسے زیادہ سیٹیں نہیں مل سکیں گی۔ نریندرمودی ہندوئوں کے مذہبی جذبات کو ابھار رہے رہیں اور کشمیری مسلمانوں کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بی جے پی ان کے تمام مسائل حل کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔
انہوں نے انتخابات کی کوریج کے لئے غیر ملکی صحافیوں کا مقبوضہ کشمیر میں داخلہ بند کردیا ہے۔ اسی طرح انتخابات کی مانیٹرنگ کے لئے آنے والے بین الاقوامی مبصرین کے داخلے کو بھی ممنوع قراردیا ہے؛ تاہم اس ضمن میں سب سے زیادہ جو افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارتی فوج کا سربراہ نریندرمودی کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے ۔ وہ بھی اس وقت مقبوضہ کشمیر میں موجود ہے اور لائن آف کنٹرول پر اگلے مورچوں کا معائنہ کررہا ہے۔ بھارتی سپاہیوں کے ساتھ اپنی بات چیت میں یہ جنونی شخص انہیں پاکستان کے خلاف آئندہ جنگ کے لئے ورغلا تے ہوئے ان کی ہمت افزائی کررہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میںہونے والے یہ جعلی انتخابات 23دسمبر تک جاری رہیں گے۔ بھارتی وزیراعظم بی جے پی کے انتہا پسند کارکنوں کے ہمراہ ہر جگہ جا رہے ہیں لیکن انہیں وہاں پذیرائی نہیں مل رہی ہے؛ بلکہ ان کے آنے کے فوراً بعد سرینگر میںمکمل ہڑتال ہوئی جبکہ ان کی حفاظت کے لئے سکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات کئے گئے۔ نریندرمودی مقبوضہ کشمیر میں انتخابات جیتنے کے لئے جو ہتھکنڈے استعمال اور پاکستان کو دہشت گردی میں
ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب امریکی صدر اوباما 26جنوری 2015ء کو بھارت کا دورہ کریں تو انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام بی جے پی کے ساتھ ہیں اور وہاں جو گڑ بڑ ہورہی ہے اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکی حکومت نے پاکستان پر بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میںہونے والی حالیہ دہشت گردی سے متعلق الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں پائے گئے۔ امریکی حکومت کے اس بیان سے نریندرمودی کو سخت مایوسی ہوئی؛ حالانکہ امید تھی کہ امریکہ بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان کی مذمت کرے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں جعلی ریاستی انتخابات کرانے کی بی جے پی کی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گی؛ تاہم اب یہ بات پاکستان کے عوام کو معلوم ہوجانی چاہیے کہ مودی سرکار پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسائیگی کے تعلقات کو قائم کرنے کی خواہش مند نہیں ہیں، وہ بعض پاکستان دشمن عناصر کے ساتھ مل کر پاکستان کے اندر گڑ بڑ کرا کے اس کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کی فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے بھارت کی اس پراکسی جنگ کے خلاف لڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی سالمیت قائم ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گی۔