12دسمبر کو کراچی میں پی ٹی آئی کا زبردست جلسہ منعقد ہوا جس میں اس تحریک کے کارکنوں کے علاوہ کراچی کے عام شہریوں نے بھی بھر پور شرکت کرکے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف عمران خان کے احتجاج کا بھر پور ساتھ دیا ہے۔ دو کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے 29سے زائد جگہوں پر دھرنا دے کر موجودہ حکومت کے خلاف اپنی قوت کا مظاہرہ کیا۔ ان دھرنوں کے دوران کسی قسم کا نا خوشگوار واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ پُرامن رہتے ہوئے پاکستانی سیاست میں عدم تشدد کے فلسفے سے متعلق ایک تاریخ بھی رقم کی گئی ہے۔ اس ضمن میں سندھ کی صوبائی حکومت کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ سندھ حکومت نے عمران خان کو حسب وعدہ مکمل سکیورٹی فراہم کی تھی جبکہ پولیس کے اعلیٰ افسران نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ دھرنوں کے دوران دنگافساد نہ ہونے پائے۔ اس کے برعکس گذشتہ دنوں اسی قسم کا دھرنا جب فیصل آباد میں ہوا تھا تو وہاں نون لیگ کے مبینہ کارکنوں نے تحریک انصاف کے کارکنوں پر تشدد کیا اور فائرنگ کرکے ایک نوجوان کو قتل کردیا۔ اس طرح فیصل آباد کے واقعے کی وجہ سے پنجاب حکومت کو ایک بار پھر عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور عوام اور خواص یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ مسلم لیگ ن اپنے مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی، یہی وجہ ہے کہ وہ تشدد کا سہارا لے کر اپنے مخالفین کے احتجاج کی آواز کو خاموش کرنا چاہتی ہے، جو کہ تمام تر جمہوری روایات اور اقدار کے خلاف ہے اور یہی سبب ہے کہ پاکستان کے عوام‘ خاص کر نوجوان‘ جن میں پڑھی لکھی خواتین بھی شامل ہیں، عمران خان کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں اور ان دھرنوں میں شرکت کرکے حکومت کی جانب سے 2013ء میں انتخابی دھاندلیوں کی مذمت کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے فوری قیام کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ حکومت نے ابھی تک جو ڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان نہیںکیا ہے۔
عمران خان کہتے ہیں کہ جب جوڈیشل کمیشن بن جائے گا تو وہ اپنا احتجاج بھی ختم کردیں گے۔ اس دوران حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات بھی تقریباً شروع ہوچکے ہیں‘ جن کے کامیاب ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنی مرضی کا جوڈیشل کمیشن قائم کرنا چاہتی ہے تاکہ فیصلہ ان کے حق میں آسکے، لیکن عمران خان جوڈیشل کمیشن کے قیام کے سلسلے میں ایسے افراد کو اس میں شامل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جو ہر لحاظ سے غیر جانبدار ہوں اور ان کا جھکائو حکومت کی طرف نہ ہو۔ یہی مسئلہ پیچیدگی کا سبب بنا ہوا ہے، اور باعث تاخیر بھی ہے۔ بہر حال حکومت کو قومی مفاد کی خاطر جلد یا بدیر یہ کمیشن قائم کرنا ہوگا‘ ورنہ دھرنوں کی صورت میں حکومت پر دبائو جاری رہے گا۔ اس مسئلہ پر حکومت کے تاخیر ی حربوں سے حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں، جس کے براہ راست اثرات معیشت پر پڑرہے ہیں۔ کراچی میں کامیاب اور پُرامن دھرنا دینے کے بعد آج عمران خان کا سونامی‘ پلان سی کے تحت لاہور سے ٹکرائے گا‘ جہاںیہ دیکھنا ہوگا کہ پنجاب کی حکومت اور پولیس تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ کس قسم کا برتائو کرے گی۔ اگر پنجاب پولیس نے لاہور میں تحریک انصاف کے متوالوں کے خلاف تشدد کا راستہ اختیار کیا جیسا کہ اس نے ماضی قریب میں ماڈل ٹائون میں منہاج القران کے کارکنوں کو قتل کرکے کیا تھا‘ تو پھر موجودہ حکومت کے لئے حکومت کرنا مشکل ترین مسئلہ بن جائے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ دھرنوں کی صورت میں ان کا انتخا بی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج پُرامن ہے جس کا مظاہرہ وہ 120دن سے اسلام آباد کے ڈی چوک پر کررہے ہیں۔ اس دوران ان کی تحریک انتہائی پر امن رہی۔ کوئی گملا تک نہ ٹوتا۔ تحریک انصاف پر پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملے کا الزام بھی غلط ہے کیونکہ ان لوگوں نے اگر حملہ کرنا ہوتا تو پہلے دن ہی کر دیتے۔ اب بھی یہ لوگ پر امن احتجاج کے ذریعے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی سے بڑھ کر اور کوئی جماعت پر امن نہیں ہے کیونکہ ان کے کارکنوں پر فیصل آباد میں اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں۔ اس میں براہ راست فیصل آباد انتظامیہ ملوث تھی۔ پولیس کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ویسے بھی اگر پولیس کوئی تشدد کرتی تب بھی کسی نے پولیس کا کیا بگاڑ لینا تھا جیسا کہ ماڈل ٹائون سانحہ میں ہوا تھا۔ لاہور کے احتجاج میں نون لیگ نئے طرح کے پلان لا سکتی ہے تاکہ پی ٹی آئی کو بدنام کیا جا سکے۔ یہ اپنے نون لیگی ورکروں کو پی ٹی آئی کے جھنڈے اور ماسک دے کر احتجاج میں شریک کر سکتی ہے اور یہی لوگ بدنظمی پھیلا کر تحریک پر سیاہ دھبہ لگانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کو مخالفین کی چالوں سے محتاط رہنا ہو گا۔ نون لیگ اپنے شہر میں کسی دوسری جماعت کا احتجاج اور وہ بھی کامیاب احتجاج کبھی بھی برداشت نہیں کرے گی۔ یہ نئے حربے اور سازشیں آزما سکتی ہے جس کا مقصد تحریک کا مورال ڈائون کرنا ہے۔ایسے میں میڈیا بہت اہم کردار ادا کرے گا کیونکہ میڈیا کی آنکھ سے کچھ بھی چھپ نہیں سکتا۔ کسی نے شرارت کرنے کی کوشش کی تو یہ شرارت کیمرے کی آنکھ کے ذریعے دنیا کے سامنے آ جائے گی۔حکمران جماعت کو چاہیے کہ وہ کراچی جلسے سے سبق سیکھے اور فیصل آباد سانحے کو دہرانے کی کوشش نہ کرے۔ ایسی کوئی بھی کوشش نون لیگ کے خلاف ہی جائے گی جو پہلے ہی بہت زیادہ سیاسی نقصان اٹھا چکی ہے۔
لاہور میں 15دسمبر کو عمران خان کی آمد پر توقع کی جارہی ہے کہ کراچی کی طرح لاہور میں بھی ان کی غیر معمولی پذیرائی ہوگی، اور خادم اعلیٰ گلو بٹوں کا سہارا لے کر تحریک انصاف کے کارکنوں پر ظلم و تشدد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔ جمہوری نظام میں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی جمہوریت کا حسن ہے جبکہ عدم تشدد کے فلسفے کو اپنا کر جمہوری اقدار کو مضبوط اور مستحکم بنایا جاسکتا ہے، تو دوسری طرف معاشرے میں پھیلتی پنپتی ہوئی نفرتوں کا بھی ازالہ ہوسکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کی بھر پور کوشش کی جائے‘ جس کا مطالبہ نہ صرف عمران خان بلکہ دیگر سیاسی پارٹیاں بھی کررہی ہیں تاکہ منتخب ہونے والی حکومت یکسوئی کے ساتھ ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرسکے۔ پاکستان میں صرف 1970ء میں یحییٰ خان نے شفاف انتخابات کرائے تھے جس پر کسی بھی سیاسی جماعت نے دھاندلی کا الزام عائد نہیںکیا تھا، لیکن اقتدار کے بھوکوں نے سازش کرکے ملک کو دولخت کردیا تھا‘ جس کا زخم پاکستان کے عوام کے دلوں اور ذہنوں میں اب بھی تازہ ہے۔