آج 16دسمبر ہے، یہ تاریخ ہمیں مشرقی پاکستان کے سقوط کی المناک داستان یاد دلاتی ہے۔ 16 دسمبر ایک ایسی تاریخ ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اسی دن متحدہ پاکستان کو اپنوں اور غیروں کی گہری سازش کے ذریعہ دولخت کیا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا لیکن کس قدر افسوسناک ہے کہ ہم سازش کے ذریعہ قائم ہونے والے اس ملک کی ترقی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے، دراصل اس تعریف کے پردے میں یہ زہر چھپا ہوا ہے کہ وطن دشمن یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش نے متحدہ پاکستان سے علیحدہ ہو کر ترقی کی‘ اگر پاکستان کا حصہ رہتا تو اسے غربت، افلاس اور قحط سالی کے علاوہ کچھ نہیں ملنا تھا۔ حالانکہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں ترقی کی شرح اور رفتار یکساں تھی۔ پٹ سن کی برآمد سے ملک کے دونوں حصوں کو خاطر خواہ مالی فوائد مل رہے تھے۔ چونکہ پاکستان کے ان دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا زمینی راستہ تھا؛ لہٰذا بھارت کو 1965ء کی جنگ کے بعد اس حصے میں سازشوں کے جال پھیلانے کے پورے پورے مواقع میسر آئے۔ سب سے پہلے تو وہاں کے سیاست دانوں نے یہ نعرہ لگایا کہ مغربی پاکستان‘ مشرقی پاکستان کے وسائل کا استحصال کررہا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ پٹ سن کی برآمد کی بیشتر آمدنی مغربی پاکستان میں خرچ ہورہی ہے؛ حالانکہ اس قسم کے تمام تر الزامات بے بنیاد تھے۔ ان کا صرف ایک مقصد تھا کہ مشرقی پاکستان کے عوام کے اذہان مغربی پاکستان کے خلاف نفرت اور دوری کے جذبات سے بھر دیئے جائیں۔ شیخ مجیب الرحمن اپنی محدود سیاسی سوچ کے باعث کبھی بھی مغربی پاکستان کے ساتھ مل کر رہنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ مشرقی پاکستان کی زیرزمین کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر پاکستان سے علیحدگی کی باقاعدہ تحریک چلا رہے تھے۔ انہیں اس سلسلے میں ''را‘‘ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن اور ''را‘‘ کے درمیان باقاعدہ اتحاد1965ء کی جنگ کے بعد ہی ہو گیا تھا۔ سابق صدر ایوب خاں کو جب اس حقیقت کا علم ہوا تو انہوں نے اُسے ملک کی سالمیت کے خلاف سازش کے الزام میں گرفتار کرلیا اور ان پر مقدمہ شروع کیا گیا۔ بنگلہ دیش کے قیام سے متعلق اب تک کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ بیشتر میں یہی لکھا ہے کہ اگر تلہ سازش کیس بالکل صحیح تھا اور یہ کہ ''را‘‘ شیخ مجیب الرحمن کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے استعمال کررہی تھی۔ خود شیخ مجیب کی بیٹی اور موجودہ وزیراعظم بنگلہ دیش نے اپنی خود نوشت کتاب میں یہ اعتراف کیا ہے کہ'' میرے والد کے ساتھ ''را‘‘ کے گہرے روابط تھے۔ ''را‘‘ ہی نے انہیں مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدگی کے لئے تیار کیا تھا‘‘۔ بنگلہ دیش کا نقشہ بھی دہلی سے چھپوا کر مجیب الرحمن کو دکھایا گیا تھا، اس طرح مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا،
دوسری طرف پی پی پی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو1970ء کے انتخابات جیتنے کے بعد اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ متحدہ پاکستان میں اپنی حکومت بنا سکتے۔ انہیں صرف سندھ اور پنجاب میں اکثریت حاصل ہوئی تھی، جبکہ صوبہ سرحد(اب خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں ان کی نمائندگی بہت کم تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ‘ بھاری اکثریت سے انتخاب جیت چکی تھی۔ عوامی لیگ کی اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ اس کا چھ نکاتی ایجنڈا تھا جس نے بنگالیوں کے دلوں اور ذہنوں کو مسحور کر لیا تھا۔ ان چھ نکات میںوہ اپنی خوشحالی کا خواب دیکھ رہے تھے، بلکہ ناقابل تردید حقیقت تو یہ ہے کہ انہی نکات نے پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کو تقویت پہنچائی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت کے صدر یحییٰ خاں نے باضابطہ اعلان کیا تھا کہ شیخ مجیب الرحمن ہی پاکستان کے آئندہ وزیراعظم ہونگے؛ جبکہ مارچ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا تھا۔ چونکہ بھٹو مرحوم خود اقتدار کے معاملے میںبہت زیادہ Ambitiousتھے، ا س لئے انہوں نے یحییٰ خان کے ساتھ ساز باز شروع کردی تاکہ کسی طرح شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار نہ مل سکے۔ ان کے یہ الفاظ بھی اب تاریخ کا حصہ ہیں کہ ''اگر دو طاقتیں کسی ایک طاقت کے خلاف متحدہ ہو جائیں تو اقتدار دو اتحادیوں کو مل سکتا ہے‘‘ اس کے بعد لاڑکانہ میں جنرل یحییٰ خاں نے بھٹو صاحب سے ملاقات کی اور جو سازباز ہوئی اس پر تبصرہ کرنا عبث ہے، لیکن یہ بھی حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ بھٹو، یحییٰ خان لاڑکانہ ملاقات نے دو طاقتوں کو ایک طاقت کے مد مقابل کھڑا کردیا۔ یحییٰ خان قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ملتوی کرنا چاہتے تھے، لیکن بھٹو صاحب نے بعض دیگر ''افراد‘‘ کے ساتھ مل کر مجیب الرحمن کو مزید علیحدگی کی طرف دھکیل دیا،جو پہلے ہی سے اس بات کا انتظار کررہے تھے۔ جب یحییٰ خان نے بھٹو کے مشورے سے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا تو مشرقی پاکستان میں سیاسی صورتحال مغربی پاکستان کے خلاف تلخی اور نفرت میں بدل گئی، بھارت پہلے ہی سے وہاں علیحدگی کی تحریک کو تقویت پہنچانے کے لئے کام شروع کرچکا تھا؛ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان میں مارچ کے بعد حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ وفاقی حکومت کی رٹ تقریباً ختم ہوچکی تھی؛ چنانچہ اس رٹ کی بحالی کے لئے آرمی ایکشن شروع ہوا‘ تو بھٹو صاحب نے فرمایا ''خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا‘‘ اس سے قبل وہ کہہ چکے تھے کہ ''جو بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میںشرکت کرنے کے لئے ڈھاکہ جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑدی جائیں گی '' بھٹو مرحوم نے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگایا تھا ‘‘یہ تمام جملے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ، دراصل مشرقی پاکستان کا المیہ اپنے ہی لوگوں کی غداری اور اقتدار کی ہوس کا نتیجہ ہے۔ اس المیے میں شیخ مجیب الرحمن اور بھٹو برابرکے شریک تھے۔ یہ ایک ایسا المناک واقعہ ہے جس نے بانیٔ پاکستان محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو ایک گہری سازش کے ذریعہ دولخت کردیا جس کے قیام کے لئے برصغیر کے لاکھوں لوگوں نے جان ومال کی قربانیاں دی تھیں تاکہ وہ اپنی مذہبی وسماجی اقدار کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ آج 16دسمبر ہے آنسو رک نہیں رہے ہیں، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ عناصر شتربے مہار کی طرح آج بھی اقتدار کی خاطر ہر انسانی اقدار کو روند تے ہوئے صرف اپنے مفاد کے لئے کام کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک بار پھر پاکستان میں صورتحال خستہ و خراب ہوتی جارہی ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ہم سب کو اپنا احتساب کرنا چاہیے اور اپنے دل سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم نے سقوط مشرقی پاکستان سے کوئی سبق سیکھا ہے؟