پہلے 16دسمبر سقوط ڈھاکہ کی یاد دلاتا تھا، اب یہی تاریخ پشاور سانحے کے حوالے سے قیامت تک سیاہ ترین دن کی حیثیت سے یادرکھی جائے گی۔ درندہ صفت ، انسان دشمن اور اسلام دشمن تحریک طالبان نے پشاور کے اسکول میںدہشت گردی کا سفاکانہ اور ظالمانہ ارتکاب کرکے 133معصوم نوجوان طلبہ سمیت 146افراد کو خاک وخون میں نہلا دیا۔ اس المناک واقعے نے پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کو غم زدہ کردیا جس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون بھی شامل ہیں۔ ایسی دہشت گردی برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں کبھی رونما نہیں ہوئی ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک طالبان نے معصوم طالب علموںکو درندگی سے قتل کرنے کا جو مجرمانہ ، بزدلانہ اور گھنائونا فعل انجام دیا ہے اس نے اسلام کی آفاقی اقدارکو بھی داغدار کردیا ہے۔ یہ درندہ صفت دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے، انہیں ملا فضل اللہ کی مکمل سرپرستی حاصل تھی جو افغانستان کے صوبے ننگر ہار میں افغانستان اور بھارتی انٹیلی جنس ' را ‘ کے لیے پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے۔ اس شخص نے اس سے قبل وادی سوات میں بھی عوام کو اسلام کے نام پر پاکستان کے خلاف بھڑکایا تھا اور بڑے پیمانے پر افرا تفری پیدا کر دی تھی، لیکن آپریشن راہ راست کی کامیابی کے بعد فرار ہو کر افغانستان چلا گیا جہاں وہ غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار بن کر پاکستان کے خلاف اُن مذموم کارروائیوں میں مصروف ہے ، ان میں پشاور آرمی پبلک اسکول کا المناک سانحہ بھی شامل ہے۔ تحریک طالبان نے آرمی پبلک اسکول کی دہشت ناک کارروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکول کے بچوں کے خلاف یہ حملہ شمالی وزیرستان میں جاری ضرب عضب کے ردعمل کے طورپر کیا گیا ہے؛ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ تحریک طالبان اور ان کے دیگر گروپس عرصہ دراز سے شمالی وزیرستان میں غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار بن کر پاکستان کو مسلسل عدم استحکام سے دوچار کررہے تھے۔ ان عناصر سے پاکستان کی سیاسی قیادت نے ''مذاکرات‘‘ بھی کیے تھے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا جبکہ یہ عناصر پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کرکے معصوم لوگوں کا خون بہاتے رہتے ہیں۔ ضرب عضب آپریشن ''مذاکرات‘‘ ناکام ہونے کے بعد اور کراچی ایئرپورٹ پر طالبان کی جانب سے حملے کے بعد شروع کیا گیا جس کے مثبت نتائج نکل رہے ہیں۔ پوری قوم ضرب عضب کا ساتھ دے رہی ہے۔ مزید برآں شمالی وزیرستان میں موجود طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے امریکہ سمیت پوری دنیا تنگ تھی ؛ بلکہ مہذب دنیا کا یہ خیال تھا اوراب بھی ہے کہ یہ عناصر ان کے ملک کے لیے بھی خوف اور خطرے کا باعث بن رہے ہیں۔ دراصل تحریک طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا ایجنڈا یہ ہے کہ کسی طرح پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کرکے اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کیا جائے (انشاء اللہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوسکے گا۔) اس ایجنڈے کے پیچھے افغانستان ، اسرائیل اور بھارت تینوں شامل ہیں۔ ان تینوں کا مفاد سامراج کے ساتھ وابستہ ہے جو جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا پر اپنی فوجی سیاسی و معاشی حیثیت اور قوت کو بڑھانا چاہتے ہیں۔
پاکستان اس وقت اندرونی وبیرونی دشمنوں سے گھر چکا ہے، بیرونی دشمن تو نظر آرہے ہیں لیکن ملک کے اندر دشمن سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پیرہن میں گھس کر پاکستان دشمن ایجنڈے پر گامزن ہیں ؛ چنانچہ پاکستان کے سیاست دانوں کی اب پشاور اسکول کے افسوسناک اور المناک سانحہ کے بعد آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور انہیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کی ترقی کے لیے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ عوام جہاں دہشت گردی کے خلاف متحدہ ہوکر اس کا مقابلہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں وہیں ان کے مسائل ومصائب کی طرف سنجیدگی سے توجہ دے کر انہیں حل کرنے میں کسی قسم کا دقیقہ فرو گذاشت نہ چھوڑا جائے ورنہ پاکستان کے اندر چھپا ہوا دشمن ہماری صفوں
میں گھس کرعداوت ، باہمی نفرت ، صوبائی اور لسانی تعصب پیدا کرکے ملک کو غیر معمولی نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرے گا۔ موجودہ سیاسی قیادت سزا اور جزا کا نظام بحال کرے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کے دلوں میں خوف پیدا ہو اور ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوکہ اگر انہوں نے مملکت خداداد میں چوری چکاری ، قتل وغارت ، اغوابرائے تاوان جیسی مذموم حرکتیں ختم نہ کیں تو وہ قانون کے آہنی ہاتھوں سے بچ نہیں سکیں گے۔ جن ممالک نے قانون کی بالادستی اور انصاف کو یقینی بنایا ہے وہاں معاشرتی ترقی عوام کی زندگیوں میں قوس قزح کا رنگ بکھیر رہی ہے۔
دہشت گردوںنے پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں آگ اور خون کی جو ہولی کھیلی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک اقتدار پر فائز حکمرانوں نے کائونٹر ٹیررازم کی پالیسی نہیں بنائی اور نہ ہی ایسی حکمت عملی نظر آتی ہے جس کے تحت موثرکارروائیاں کرکے دہشت گردوں اور کرائے کے قاتلوں کا سمری ٹرائل کرکے واصل جہنم کیا جائے۔ دہشت گردوں کا پاکستان کے مختلف حصوں میں مجرمانہ کارروائیاں کرنے کا حوصلہ صرف اس وجہ سے بڑھا ہے کہ یہاں نہ تو قانون نام کی کوئی چیز نظر آتی ہے اور نہ ہی جرائم میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ حکومت مصلحتوں کا شکار ہوچکی ہے ؛ بلکہ اس ضمن میں کوئی بڑا قدم اٹھانے سے بھی قاصر نظر آرہی ہے۔ پشاور
اسکول میں دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم بچوں کی شہادت کے فوراً بعد چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کابل کا مختصر دورہ کیا ، ان کے ساتھ آئی ایس آئی کے سربراہ جناب رضوان اختر بھی موجود تھے‘ جنہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کرکے انہیں ثبوت کے ساتھ بتایاکہ کس طرح تحریک طالبان کا سربراہ ملا فضل اللہ پاکستان دشمن طاقتوں کے اشارے پر پاکستان میں دہشت گردی کررہا ہے۔ اس شخص کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا جائے نیزاشرف غنی سے یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں کو مل کر سرحدوں کے قریب مفرور دہشت گردوں کے خلاف فی الفور کارروائی کرنی چاہئے ورنہ افغانستان اور پاکستان دونوں میں امن کے امکانات پیدا نہیں ہوسکیں گے۔ اشرف غنی نے یقین دلا یا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں ان کے ساتھ بھر پور تعاون کریں گے۔
جہاں تک پاکستان کی سیاسی قیادت کی تعلق ہے، اس میں فوری اور دور رس فیصلہ کرنے کی صلاحیت مفقود ہے، یہی وجہ ہے کہ بیرونی اور اندرونی دشمن باہم مل کر پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑرہے ہیں۔ اگر حکومت بعض مصلحتوں کی بنا پر دہشت گردوں کے خلاف واضح قدم اٹھانے سے گریزاں ہے تو ملک میں ایمر جنسی نافذ کردی جائے تاکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں جہاں ایسے عناصر چھپے ہوئے ہیں ان کے خلاف موثر اور بھرپور کارروائی ہوسکے۔