مستحسن فیصلہ

ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کے پیش نظر وزیراعظم پاکستان جناب میاں نواز شریف کے خیالات میں نمایاں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ انہوں نے اب فیصلہ کرلیا ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو کسی طور پر بھی نہیں معاف کیا جائے گا، بلکہ ضرب عضب کا دائرہ شہروں اور دیہات تک پھیلا دیا جائے گا ، جہاں یہ عناصر چھپے ہوئے ہیں اور بے گناہ افراد کو بے دردی سے قتل کرکے پاکستان میں افرا تفری اور خوف وہراس پیدا کررہے ہیں۔ انہوںنے فرقہ واریت پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سرطان کی طرح پاکستان میں پھیلتا جارہا ہے، اس لیے اسے روکنے اور ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ دہشت گرد، ٹارگٹ کلرز اور فرقہ واریت کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے ، جبکہ اس کو معاشرے میں پھیلانے اور مضبوط کرنے میں پاکستان دشمن غیر ملکی طاقتیں ملوث پائی جارہی ہیں۔ کچھ غیر ملکی طاقتیں پاکستان کے اندر چھپے ہوئے دشمنوں کے ساتھ مل کر اس مملکت خداداد کو عراق اور شام کی طرح عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب اس بات پر ان کا یقین کامل ہوچکا ہے کہ پاکستان کے اولین دشمن یہی عناصر ہیں جو اس سرزمین میں رہ رہے ہیں، معاشی وسماجی فوائد حاصل کررہے ہیں اور موقعہ ملنے پر غیر ملکی آقائوں کے اشارے پر بے گناہ افراد کو قتل کرکے سماج کو تقسیم درتقسیم کی صورتحال سے دوچار کررہے ہیں، ان عناصر نے تحریروتقریر کی آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے، اور مملکت کی نظریاتی اساس پر ضرب لگائی ہے، جس کی وجہ سے اسلام کی اعلیٰ اقدار کا یورپی ممالک میں مذاق اڑایا جارہا ہے، حالانکہ اسلام سلامتی کا دین ہے، جو تمام ادیان کی تہذبی، فکری وتمدنی اقدار کی نہ صرف قدر کرتا ہے، بلکہ پاکستان کے اندر ان کی حفاظت کا امین بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے عوام نے انتہا پسندوں کی جانب سے چرچ اور مندروں پر حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ دراصل مسیحی برادری اور ہندووں کی عبادت گاہوں پر دہشت گردی کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو اس خطے کے علاوہ مہذب دنیا میں تنہا کردیا جائے، لیکن شاید اب ایسا نہیں ہوسکے گا۔ قوم بیدار ہوچکی ہے، انہیں یہ احساس ہوچکا ہے کہ جب تک پاکستان میں اسلام کے اصولوں کے تحت جزا اور سزا کا نظام قائم نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کی حوصلہ شکنی نہیں ہوسکتی، نیز اب حکومت کے علاوہ عوام اور خواص دونوں میں یہ ادراک واحساس پیدا ہوا ہے کہ کوئی بھی مسلمان فرقہ یا طبقہ تشدد کے ذریعہ اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط نہیںکرسکتا۔ قرآن مجید میں بڑی وضاحت سے یہ کہا گیا ہے کہ دین میں کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہے یعنی با الفاظ دیگر ہر فرد انسانی اور تہذبی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی سوچ کو جبر یا تشدد کے ذریعہ کسی دوسرے پر مسلط نہیں کرسکتا، یہی وجہ تھی کہ اسلام کا آفاقی پیغام بہت جلد ساری دنیا میںپھیل گیا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ جاہل اور ناخواندہ عناصر نے اسلام کا نام لے کر پاکستان میں جس طرح اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہایا ہے، اس کی وجہ سے ہم سب کے سر شرمندگی سے جھک گئے ہیں۔ تاہم اب موجودہ حالات کے پیش نظر سیاسی قیادت اور افواج پاکستان ایک ہی صفحہ پر آگئے ہیں، یہ ایک خوش آئندبات ہے‘ اس کی وجہ سے سیاسی ومعاشرتی افق پر اتحاد ویکجہتی کے مثبت اثرات پیدا ہورہے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی رہی تھی کہ ہمارے بعض سیاست دان اپنی بیمار انا اور غیر ملکی طاقتوں کے اشاروں پر فوج کو تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے تھے، خصوصیت کے ساتھ جب مسلم 
لیگ ن اقتدار میں آتی ہے تو اس کے نمائندے کسی نہ کسی بہانے سے بے جا تنقید کرکے پاکستانی عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے کہ سیاسی قیادت فوج کی سوچ سے مختلف سوچ رکھتی ہے۔ حالانکہ ان ناعاقبت اندیش سیاست دانوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ ساری دنیا خصوصاً ترقی پذیر ملکوں میں فوج اور سیاست دان ہر طرح سے ایک ہی پیج پر ہوتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے نہیں ہوسکتے تو پھر ان دو اہم اداروں کے مابین رسہ کشی ہونے کی صورت میں بادل نخواستہ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے نوزائیدہ جمہوریت کا سفر رک جاتا ہے‘ لیکن اس کو کیا نام دیا جائے کہ ان کے ادوار میںکرپشن کم اور معاشی ترقی زیادہ ہوتی ہے۔ پشاور کے آرمی اسکول کے المناک اور افسوسناک واقعہ کے بعد سیاسی قیادت اور فوجی قیادت ایک سوچ کے ساتھ دہشت گردوں کو عبرتناک سزادینے کا عزم کرچکی ہے جو کہ بہت پہلے ہی ہو جاناچاہئے تھا۔ ماضی میں سیاسی قیادت ان دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے سلسلے میں اغماض برت رہی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے حوصلے بلند ہوگئے تھے اور انہوںنے قانون کی گرفت کو ڈھیلا پاکر پاکستان کے اندر خون کی جو ہولی کھیلی تھی اس کی وجہ سے مملکت کی بنیادیں ہل 
کر رہ گئیں تھیں۔ اب سیاسی قیادت مملکت کی آزادی اور سالمیت کی خاطر بیدار ہوچکی ہے اور فوجی قیادت کے ساتھ مل کر ان عناصر کو کیفر کردار تک پہنچا رہی ہے، جنہوں نے گذشتہ دس پندرہ برسوں میںپاکستان کے وجود کو چیلنج کررکھا ہے اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ مہذب قومیں بھی اپنی آزادی برقرار رکھنے اور اسے مستحکم بنانے کے سلسلے میں فوج کے مشوروں سے کام کرتی ہیں اور جب ایک مشترکہ سوچ پر مبنی لائحہ عمل طے پاجاتا ہے تو اس پر یکسوئی کے ساتھ عمل بھی کیا جاتا ہے ، تاکہ وطن دشمنوں کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہوسکے۔ یہی زندہ قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔ مزیدبرآں افغانستان کی فوج نے جنرل راحیل شریف کی درخواست پر افغان ، پاک سرحدوں پر کارروائی کرکے جن دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا ہے، اس کی وجہ سے بھی پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے گی۔ آئندہ بھی پاکستان اورافغانستان مل کر اپنی سرحدوں کے دونوں طرف ایسا آپریشن کرتے رہے تو بہت جلد ان دونوں ملکوں میں امن کے امکانات روشن ہوسکیں گے اور عین ممکن ہے کہ یہ عناصر اپنے ہتھیار پھینک کر سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل ہوجائیں، جس کا اعلان پاکستا ن اور افغانستان دونوں مسلسل کررہے ہیں۔ تخریبی عناصر کے خلاف پاکستان اورافغانستان کا اتحاد قابل تحسین ہے، جسے ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مضبوط ہونا چاہیے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں