پشاورکے آرمی پبلک اسکول میں134معصوم بچوں کی شہادت کے بعد قوم دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو گئی ہے ۔ موجودہ حکومت بھی بیدار ہوگئی ہے، اسے یہ احساس ہوگیا ہے کہ یہ دہشت گرد غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار بن کر کس طرح پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کررہے ہیں، ملک و ملت کا شیرازہ منتشرکررہے ہیں اور معصوم پاکستانی عوام کو بے دردی سے قتل کرکے معاشرے کو خوف زدہ کر رہے ہیں ۔ ان کے یہ گھنائونے کرتوت گزشتہ دس پندرہ برسوں سے جاری ہیں ، جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کی شرح نمو شدید متاثر ہوئی ہے۔ دوسری طرف غیر ملکی سرمایہ پاکستان آنا تقریباً بند ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی معیشت کی گروتھ متاثر ہوئی ہے۔ سابق حکومت کے علاوہ موجودہ حکومت بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کررہی تھی اوراس مسئلے کو نام نہاد جمہوری حکومتوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ اہل قلم و خرد مسلسل سابق اور موجودہ حکومت کو متنبہ کررہے تھے کہ اگردہشت گردوں کی کارروائیاں نہ روکی گئیں تو پاکستان کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی، لیکن جب آرمی پبلک سکول کا قابل مذمت اور المناک واقعہ پیش آیا تو موجودہ حکومت کو ہوش آیا کہ اب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے اوران وحشی درندوں کے خلاف فوری کارروائی نا گزیر ہوچکی ہے۔ عمران خان نے بھی حکومت کے خلاف جاری دھرنوں کو موخر کردیا تاکہ اس نازک موقعہ پر حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے جاسکیں اور دہشت گردوں کو یہ واضح مگر دوٹوک پیغام دیا جائے کہ پوری قوم کے علاوہ سیاسی اور عسکری قیادت بھی دہشت گردی کو نابود
کرنے کے سلسلے میں متحد ہوگئی ہے۔ اس کا اظہار آرمی اسکول کے سانحہ کے بعد مسلسل مذمتی بیانات سے کیا جارہا ہے۔ پوری قوم کا اتحاد بدھ کی رات اس وقت دیکھنے میں آیا جب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب کے دوران ملٹری کورٹس کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے یہ نوید سنائی کہ ملک کی تمام بڑی بڑی سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کے ضمن میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوگئی ہیں۔ ملٹری کورٹس کا قیام پاکستان کے آئین میں ترمیم کے بعد معرض وجود میں آئے گا۔ ان ملٹری کورٹس کا عرصہ فی الحال دوسال تک کے لیے ہوگا۔ ملٹری کورٹس کا قیام اس لیے بھی ضروری ہوگیا کہ عدلیہ کا موجودہ نظام دہشت گردوں کے خلاف فیصلے کرنے میں ناکام نظر آرہا تھا۔ اگر عدلیہ کا نظام اتنا ہی مضبوط،موثر اور قابل تعریف ہوتا تو ماضی میں پکڑے جانے والے دہشت گردوں کے خلاف نظر آنے والا انصاف کیا جاتا اور انہیں قرار واقعی سزا ملتی، لیکن ایسانہیں ہوا ؛ بلکہ عدلیہ سے عوام کو یہ عام شکایت رہی کہ دہشت گرد اور ٹارگٹ کلرز کو گرفتار تو کیا جاتا ہے لیکن عدالتیں انہیں رہا کردیتی ہیں۔ خود آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ سوات میں فوجی آپریشن کے دوران ثبوت کے ساتھ دہشت گرد گرفتار کیے گئے تھے لیکن بعد میں عدالتوں نے انہیں رہا کردیا۔
چنانچہ سزا نہ ملنے کی صورت میں عدالتوںسے رہا ہونے کے بعد ان سماج اور ملک دشمن عناصر کے حوصلے بلند ہوگئے تھے اورا ن کی ملک کے مختلف صوبوں میں متشددانہ کارروائیاں بڑھ گئیں تھیں۔اب ایسا ممکن نہیںہوگا کیونکہ موجودہ حکومت خود اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اگر دہشت گردوں اور دیگر سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت اور تلخ فیصلے نہیں کیے گئے تو ملک کا وجود بھی سوالیہ نشان بن سکتا ہے ۔ دراصل اس وقت پاکستان حالت جنگ میںہے، پاکستان دشمن طاقتیں پاکستان کے اندر رہنے والے بعض لالچی قسم کے وطن دشمن عناصرکو اپنے ساتھ ملا کراور عوام کو مذہب ولسانیت کی بنیاد پر ورغلا کر خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کررہی ہیں۔ بہر حال اب پاکستانیوں کی اکثریت اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ پاکستان کے وجود اور آزادی کی خاطر نہ صرف متحد ہونے بلکہ ہر قسم کی قربانیاں دینے کا وقت آ گیا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس کی بنیاد پر ملٹری کورٹس کا قیام پاکستان کے آئین میں مناسب ترمیم کرنے کے بعد عمل میں آرہا ہے۔ اس طرح کی کورٹس ان ممالک میں بھی
قائم کی گئی ہیں جہاں دہشت گردوں نے اپنی مذموم کارروائیوں کے ذریعے معیشت اور معاشرت کو تباہ کرنے کی کوششیں کی تھیں ۔ سری لنکا میں ایسے ملٹری کورٹس کے قیام کے بعد وہاں جاری علیحدگی پسندوں کی تحریک دم توڑ گئی تھی ۔ چین میں بھی ایسی کورٹس قائم ہیں جہاں سماج دشمن عناصر کے خلاف فوری فیصلہ کرکے انہیں عبرتناک سزائیں دی جاتی ہیں ۔ سعودی عرب میں ہر قسم کے جرائم کے سلسلے میں فوری فیصلہ صادرکیا جاتا ہے اور صرف چند دن کے اندر ان پر عمل درآمد کرکے انصاف کے تقاضوں کی روشنی میں مجرم کو سزائیں دے دی جاتی ہیں۔ ایران میںبھی اسی قسم کی کورٹس قائم ہیں (مگر دوسرے نام سے) جہاں قاتلوں ، دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کو انصاف کے تمام تقاضے پورکا کرکے سر عام پھانسی بھی دی جاتی ہے۔
سخت سزائیں جرائم روکنے میںمددگار ثابت ہوئی ہیں۔ اگر پاکستان میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف فوری انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد انہیں سخت سزائیں دی جاتیں توملک میں امن قائم ہوجاتا ۔ گزشتہ پندرہ برسوں سے پاکستان کے معصوم لوگوں کو مختلف علاقوں میں بڑی بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے جس میں غیر ملکی بھی شامل تھے۔اُس وقت ماسوائے چند سیاسی پارٹیوں اور قلم کاروں کے کسی نے بھی ان کے خلاف آواز بلند نہ کی جبکہ حکومت ان حالات کے پیش نظرکسی قسم کا ایکشن لینے سے قاصر نظر آرہی تھی، لیکن جب آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں نے انتہائی بربریت کے ساتھ معصوم طلبا کو شہید کردیا تو حکومت کی آنکھیں کھل گئیں اور ایک متفقہ فیصلہ کیا گیا جس میں دیگر فیصلوں کے علاوہ ملٹری کورٹس کے قیام کو موجودہ نامساعد حالات کے پیش نظر ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کے عوام اور خاص طور پر سیاسی پارٹیوں کو یہ سمجھناچاہیے کہ پاکستان دشمن طاقتیں پاکستان کے وجود کے درپے ہوگئی ہیں، ان کی مدد وہ عناصر کررہے ہیں جو بظاہر پاکستانی نظر آرہے ہیں، لیکن ان کے عزائم وہی ہیں جو پاکستان دشمن ممالک کے ہوتے ہیں۔ ہمیں ان عناصر پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوکر پاکستان کے خلاف لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں اور دشمنوں کے عزائم پورے کررہے ہیں ۔ ایک دو سیاسی پارٹیوں نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ملٹری کورٹس سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنائیں گی، لیکن حکومت نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اگر سیاسی کارکن واقعتاً سیاسی کارکن ہیں اور وطن دشمن سرگرمیوں میں شامل نہیں ہیں تو انہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
پاکستان میں ڈھیلی ڈھالی کرپٹ نا م نہاد جمہوری حکومتوں نے جس طرح پاکستان کو لوٹا اور وطن دشمن عناصرکی سرگرمیوں کی جان بوجھ کر نہیں روکا اس کی وجہ سے آج پاکستان میں ایسے بدکردار جرائم پیشہ عناصر بہت حد تک معاشرے میں افراتفری پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ملٹری کورٹس انہی عناصر کے خلاف ڈھال کا کردار ادا کریں گی۔