13سال کے بعد نیٹو افواج افغانستان سے جارہی ہیں اور سکیورٹی کی تمام تر ذمہ داریاں افغان نیشنل آرمی کے سپرد کی جارہی ہیں، جس کی کل نفری 3لاکھ کے قریب ہے ۔ نیٹو کے علاوہ بھارت کی فوج نے بھی افغان نیشنل آرمی کی تربیت و تنظیم میں حصہ لیا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کی فوج کے سربراہ راحیل شریف نے بھی افغان نیشنل آرمی کو مزید تربیت دینے کے سلسلے میں اپنی خدمات کی پیش کش کی ہے، تاہم ا س حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ تیرہ سال گزرجانے کے بعد غیر ملکی افواج (نیٹو) ابھی تک افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکیں‘ بلکہ موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی افغان طالبان کے حملوں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ گمان غالب ہے کہ ان حملوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ تاہم نیٹو افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد بارہ سے پندرہ ہزار تک امریکی فوجی وہاں موجود رہیں گے جو افغان حکومت اور افغان آرمی کو فنی خدمات دیتے رہیں گے، لیکن وہ افغان طالبان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ اس کے علاوہ امریکی فوج تین فوجی ہوائی اڈوں کو اپنی تحویل میں رکھے گی اور ا س طرح افغان حکومت کو امریکہ کی جانب سے ''اخلاقی مدد‘‘ ملتی رہے گی۔ واضح رہے کہ اشرف غنی کی موجودہ حکومت نے امریکہ کے ساتھ باہمی سکیورٹی کا معاہدہ کیا ہوا ہے، جبکہ سابق صدر کرزئی نے امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ پہلے ہی کرلیا تھا تاکہ افغان طالبان کی جدوجہد کو ختم کرنے کے لئے امریکہ سے مزید فوجی و مالی امداد حاصل کی جاسکے، تاہم افغان جنگ میں امریکہ اور اس کے حواریوںکا تقریباً ایک ٹریلین ڈالر خرچ ہوچکا ہے، لیکن امریکہ طالبان کے خلاف جنگ نہیںجیت سکا، تاہم یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ افغانستان میں بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم میں اضافہ ہوا ہے، خواتین کو بھی ان کے حقوق ملے ہیں، اور قدامت پسند قبائلی معاشرے میں خواتین افغان پارلیمنٹ میں آچکی ہیں، صحت کے شعبے میں بھی بہتری آئی ہے، لیکن کیونکہ افغان طالبان کی افغان حکومت اور غیر ملکی قابض فوج کے خلاف جنگ جاری ہے، اس لئے ترقی کے ثمرات وسیع تر بنیادوں پر عوام کو نہیں مل سکے۔ افغان طالبان پوست کی کاشت کرکے اپنے لئے آمدنی کے ذرائع پیدا کرتے ہیں، اس وقت افغانستان منشیات کی تیاری اور اسمگلنگ کا سب سے بڑا اڈا بن چکا ہے۔ منشیات کی تجارت میں افغان وار لارڈز بھی شامل ہیں، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا نیٹو افواج کے جانے کے بعد افغان نیشنل آرمی اور پولیس افغانستان میں بہتر اور موثر طریقے سے سکیورٹی کے فرائض انجام دے سکے گی؟
بعض دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ افغان نیشنل آرمی ہنوز کمزور ہے اور گوریلا جنگ کے خلاف لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتی، مزید برآں افغان فوج میں طالبان کے ہمدرد بھی شامل ہوگئے ہیں، جو موقع ملنے پر دہشت گردی کا ارتکاب کرسکتے ہیں، اور بسا اوقات فوج کو خیرباد کہہ کر افغان طالبان کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں۔ افغان حکومت کے سامنے سب سے بڑا یہی مسئلہ ہے، اور اس کو حل کرنے کے سلسلے میں جتنی بھی تدابیر اختیار کی گئیں، وہ ناکام ثابت ہوئی ہیں، لیکن حال ہی میں پاکستان کی فوج اور افغان حکومت میں جو غیر تحریری معاہدہ ہوا ہے، اس کے مطابق دونوں فوجیں مل کر پاک افغان سرحدوں کے قریب موجود دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گی‘ بلکہ اس سلسلے میں افغان آرمی کی طرف سے کارروائی شروع بھی ہو چکی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام میں بھارت راستے کا پتھر بنا ہوا ہے۔ اس کی اولین خواہش اور ترجیح یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مفاہمت نہ
ہوسکے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان حالات میں کشیدگی اور بدگمانیاں بدستور قائم رہیں، بالفاظ دیگر بھارت اسی حکمت عملی کے تحت پاکستان کے اندر غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مل کر پراکسی جنگ لڑرہا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک امریکہ اور پورپی یونین کو بھی ہے، اور انہی کی درپردہ کوششوں سے بھارت ابھی تک مکمل طورپر کھل کر سامنے نہیں آیا۔ افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی دہشت گردی کے انسداد کے لئے پاکستان کے تعاون وا شتراک کو ناگزیر سمجھتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان آئے اور فوجی قیادت سے اس مسئلہ پر تفصیل سے بات چیت کی‘ جس کے مثبت نتائج نکل رہے ہیں۔ اشرف غنی افغانستان سے پاکستان کے خلاف بھارت کی سرگرمیوں کے بھی خلاف ہیں۔ وہ کوشش کریں گے کہ بھارت کی سرگرمیوں کو صرف افغان معیشت کی تعمیر میں مدد تک محدود رکھا جائے۔ بھارت کو افغانستان میں پیر جمانے اور پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے کا موقع دینے میں سابق صدر کرزئی کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ وہ نہ صرف پاکستان کا دشمن تھا،بلکہ بھارت کے ذریعہ پاکستان کے خلاف اپنی ذاتی جنگ لڑرہا تھا‘ لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے نہ صرف پاکستان اور افغانستان
متاثر ہورہے ہیں، بلکہ پورا خطہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ چین بھی افغانستان میں امن کے قیام میں گہری دلچسپی لے رہا ہے بلکہ افغانستان کی موجودہ حکومت اور پاکستان کو قریب لانے میں چین کا ایک اہم رول رہا ہے اور چین کی افغانستان میں موجودگی سے بھارت کے پاکستان کے خلاف ناپاک عزائم کی حوصلہ شکنی بھی ہورہی ہے۔ بہر حال اگر بھارت نے افغانستان کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا تو بھارت کے اندر بھی حالات بگڑ سکتے ہیں، کیونکہ نریندرمودی کی حکومت میں شامل انتہا پسند آر ایس ایس بھارت میں مسلمانوں اور مسیحی برادری کو زبردستی ہندو بنا رہے ہیں ، یعنی ایک بار پھر بھارت میں شدھی کی تحریک شروع ہوچکی ہے، جو انسانی حقوق کے سراسر خلاف ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت کا سیکولر چہرہ مسنح ہورہا ہے۔
نیٹو کی افواج کی واپسی کے سلسلے میں کابل کے نواح میں سخت سکیورٹی کے حصار میں الوداعی تقریب منعقد ہوئی تھی، جس میں افغان حکومت کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔ 50ممالک پر مشتمل نیٹو کی فوج کی کل تعداد 130,000تھی جو کم ہوتے ہوتے چند ہزار رہ گئی تھی۔ افغان جنگ میں نیٹو کے تقریباً 3,485 فوجی ہلاک ہوئے تھے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ افغان آرمی کس طرح افغانستان میں سکیورٹی فرائض انجام دے سکے گی؟