طویل عرصے کے بعد قوم کو خوشخبری میسرآئی ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت پاکستان میں جاری دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے متحد ہوچکی ہے اور اس بات پر اتفاق کرلیا گیا ہے کہ فی الفور فوجی عدالتیں قائم کی جائیں تاکہ معاشرے میں سماج دشمن اور دہشت گردوں کے خلاف فوری فیصلہ صادر کرنے کے بعد قانون کی بالادستی اور اس کا احترام پیدا کیا جاسکے۔ بد قسمتی سے گذشتہ پندرہ سالوں سے ملک میں لاقانونیت کے پھیلائو کی وجہ سے عوام اور خواص دونوں میں مایوسی پھیل رہی تھی ، جبکہ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ حکومتوں پر کی جانے والی تنقید بجا تھی، کیونکہ انہوں نے قانون کی عمل داری کو معاشرے میں یقینی بنانے کے سلسلے میں کوئی حکمت عملی نہیں ترتیب دی تھی، یہی وجہ تھی کہ معاشرہ دہشت گردوں ، چور ، اچکوں اور ٹارگٹ کلرز کے سامنے بے بس ہوگیا تھا۔ یہ صورت حال گزرے ہوئے برس تک تھی، لیکن جب 16دسمبر کو پشاور آرمی پبلک اسکول میںدہشت گردی کا دردناک واقعہ پیش آیا تو پوری قوم بیدار ہوگئی اور باہمی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے یہ عہد کیا گیا کہ سب سے پہلے پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کیا جائے گا ، اس کے بعد دیگر معاملات پر توجہ دیتے ہوئے ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کی کوشش تیز سے تیز ترکی جائے گی۔ دہشت گردی کے انسداد کے سلسلے میں 20 نکات پر قوم کا اتحاد ہوچکا ہے، جس کی میڈیا نے خاصی تشہیر کی ہے، یہ بیس نکات دراصل قومی ایکشن پلان کا حصہ ہیں۔ قومی ایکشن پلان کی تشکیل سے قبل پاکستان آرمی نے کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردی کے حملے کے فوراً بعد شمالی وزیرستان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ضرب عضب شروع کردیا تھا۔ سیاسی قیادت نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ دراصل پاکستان میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے سے متعلق پاکستانی فوج کی سوچ سیاسی قیادت سے ہمیشہ بہت آگے رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ سیاسی قیادت ملک کے دفاعی امور سے متعلق اتنی آگہی نہیں رکھتی جتنی فوج کے پاس ہے مزیدبرآں سیاسی افراد کی سوچ کا دائرہ کار اپنے ذاتی مفاد کے گرد گھومتا ہے، بلکہ ان کی بے لگام کرپشن کی وجہ سے سماج دشمن عناصر کی سرگرمیوں میں بہت زیادہ اضافہ بھی ہوا ہے۔ یہی عناصر جمہوریت کا راگ اس لئے الاپتے ہیں کہ اس کے ذریعہ وہ جہاں معاشرے میں اپنے آپ کو محترم بنا سکیں تو دوسری طرف اس نام نہاد جمہوری نظام کے ذریعہ ملک کے وسائل کو اپنے استعمال میںلا سکیں۔ چنانچہ ان افراد نے گڈگورننس کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ جان بوجھ کر اس سے اغماض برتا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں گذشتہ کئی سالوں سے طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی جبکہ نوجوانوں کے پاس تمام تر تعلیمی اسناد اور قابلیت ہونے کے باوجود مستقبل تاریک نظر آرہا تھا۔ معاشرے اور مملکت کی اس خراب اورناگفتہ بہ صورتحال کے پیش نظر پیدا ہونے والے خلا کو سماج دشمن عناصر نے جس میں دہشت گردی، بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز شامل تھے، پورا کردیا اور اندر اور باہر کی ''مدد‘‘ سے پاکستان میں وہ افراتفری مچائی کہ ملک کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا تھا، لیکن ضرب عضب اور پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں بچوں کی شہادت نے اس قوم کو جھنجھوڑ کر ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کردیا ہے۔ یہ بات بھی نا قابل تردید ہے کہ آرمی پبلک اسکول کے دردناک واقعے کے بعد فوج نے سیاسی قیادت کو قائل کرنے میں کامیا بی حاصل کی کہ وہ آگے بڑھ کر جرأت مندانہ فیصلہ کرے اور ایک قومی ایکشن پلان کے تحت ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کی اجتماعی کوششوں کا بھر پور ساتھ دے۔ دراصل اگر وزیراعظم نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر دبائو نہ ہوتا تو یہ لوگ ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے تاخیری حربے استعمال کرکے حالات کو جوں کا توں رکھنے کی کوشش کررہے تھے، لیکن کیونکہ سیاسی قیادت پر فوج کے دبائو کے علاوہ عوام کا بھی بہت زیادہ دبائو تھا، اس لیے سیاست دان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے جس کی وجہ سے قوم جہاں خوش ہوئی‘ وہیں اتحاد ویگا نگت کی لہریں معاشرے کے مختلف طبقوں کو بھی وطن بچانے کے لئے ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہیں۔
بیس نکات کا سب سے اہم پہلو فوجی عدالتوں کا قیام ہے، جس
کے ذریعہ دہشت گردوں کے خلاف قومی فیصلے صادر کرکے ان کو ان کے انجام تک پہنچایا جاسکے گا۔ کچھ سیاسی پارٹیوں کو فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق تحفظات تھے، لیکن جمعہ کے روز ہونے والی اے پی سی میں ان تحفظات کو دور کردیا گیا ہے، جبکہ جنرل راحیل شریف نے سیاست دانوں کو یقین دلایا ہے کہ حالات معمول پر آتے ہی فوجی عدالتیں ختم ہوجائیں گی اور موجودہ عدالتی نظام اپنا روایتی کام انجام دے سکے گا۔ دراصل پاکستان فوجی عدالتوں کا قیام کوئی نئی بات نہیں ہے، نواز شریف کے دوسرے دور میں جب معاشرتی و سیاسی حالات انتہائی خستہ و خراب تھے، کراچی لہو لہان ہو رہا تھا ، ان عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تھا، تاکہ انصاف کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جلد فیصلے کرکے سماج دشمن ، ملک دشمن اور غیر ملکی ایجنٹوں کو واصل جہنم کیا جاسکے۔ ماضی میں عام سویلین عدالتیں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مقدمات کو اتنا طول دیتی ہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیںہوتے اور ظلم کرنے والا آزاد ہوکر دوبارہ سماجی جرائم کرنے لگتا ہے۔ اس مرتبہ ایسا نہیں ہوسکے گا، کیونکہ پاکستان میں بری گورننس ، سیاسی و معاشرتی افراتفری، کرپشن اور بگاڑ کی وجہ سے جہاں مملکت کمزور ہورہی تھی، وہیں ہمارا پڑوسی ملک بھارت ہماری ا س اندرونی صورتحال سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہا تھا اور اٹھارہا ہے۔ اس ملک کا پاکستان کے خلاف کردارAgent Provocateurکا ہے۔
اس کی کوشش یہ ہے کہ کسی بہانے سے پاکستان پر حملہ کرکے اس کو تباہ کردیا جائے۔ اس کی مثال لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر اس کی بلا اشتعال انگیز ہونے والی فائرنگ کا سلسلہ ہے۔ نیز بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس نے پاکستان رینجرز کے دو اہل کاروں کو اس وقت شہید کردیا‘ جب انہیں بعض معاملات پر بات چیت کرنے کے لئے بلایا گیا تھا۔ مزیدبرآں بھارت کی وزارت دفاع نے پاکستان پر ایک اور الزام عائد کیا ہے کہ کیٹی بندر سے بارود سے بھری کشتی بمبئی کی طرف آرہی تھی لیکن خفیہ اداروں کی اطلاع کے بعد بھارت کی نیوی نے اسے تباہ کردیا ہے، حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ، لغو اور بے بنیاد الزام ہے۔ کیٹی بندرسے جانے والی ماہی گیروں کی چھوٹی کشتیاں ہوتی ہیں۔ ان میں کسی شہر کو تباہ کرنے کے لئے بڑی مقدار میں گولہ بارود جمع کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے پاس اتنا ایندھن ہوتا ہے کہ وہ بمبئی تک کا طویل سفر اختیار کرسکیں۔ دراصل بھارت کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت پاکستان کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھانے کی گھنائونی سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس سازش کا انکشاف بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کے حالیہ بیان سے ہوتاہے، جس میں انہوںنے کہا ہے کہ ''پاکستان کے ساتھ ایسا سلوک کریں گے جس کا گمان تک نہ ہوگا‘‘ اس دھمکی آمیز بیان سے پاکستا ن کے سیاست دانوں کو اب یہ احساس ہوجانا چاہیے کہ پاکستان اندرونی اور بیرونی جنگ لڑ رہا ہے، جسے جیتنے کے لئے مضبوط اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ وطن کی آزادی اور خود مختاری کو تاقیامت قائم رکھا جاسکے۔