فرینڈلی اپوزیشن

''میثاق جمہوریت‘‘ پر دونوں بڑی پارٹیوں پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) نے دستخط کرکے سکھ کا سانس لیا تھا کہ اب ملک میں نہ تو مارشل لاء آئے گا اور نہ ہی طالع آزما ''جمہوریت‘‘ کے سفر کو روک سکے گا۔ اس میثاق کے نتیجہ میں پاکستان کے عوام کو ایک ایسی جمہوریت ملی جس میں جمہور نے اپنے ووٹوں کے ذریعہ تبدیلی کی خاطر یقینابھر پور حصہ لیا مگر جمہوریت سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہوسکیں۔ ووٹ لینے والے وعدے کرکے اقتدار کی مسند پر براجمان ہوگئے جبکہ ووٹ دینے والے اپنے معاشی معاملات اور حالات کے سدھار کے لیے ان کا منہ تکتے رہ گئے۔ میثاق جمہوریت کے بطن سے پیدا ہونے والی فرینڈلی اپوزیشن نے جمہوریت کی رہی سہی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ عدلیہ بھی اب یہ محسوس کررہی ہے کہ نا اہل حکومت اہل زر اور اہل ہوس کی پرورش کررہی ہے۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد جب پی پی پی کو اقتدار ملا اورپی پی پی کے منتخب نمائندوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے سابق دور میں قومی وسائل کو جس طرح ضائع کیا، اس کی داستانیں اب بھی ختم نہیںہورہیں،جن سیاست دانوں نے پیپلز پارٹی کے اقتدار اور ان کے مفادات کو تقویت پہنچائی تھی موجودہ حکومت بھی اپنی نادانی اور کم علمی کی وجہ سے ناکامی کی نئی داستانیں رقم کررہی ہے۔ اگر ن لیگ کسی ایک ''طبقے‘‘ کی دشمنی اور عداوت کے پیش نظر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کرتی اور پی پی پی کی حکومت کی جانب سے ہونے والے کرپشن اور لوٹ کھسوٹ پر آواز بلند کرنے اور احتجاج کرنے سے گریز نہیں کرتی تو صورتحال ایسی نہیں ہوتی جو آج ہوچکی ہے اور کلیدی ادارے اس طرح تباہ وبرباد نہیں ہوتے جو اب ہوچکے ہیں۔ اسی فرینڈلی اپوزیشن نے جمہوریت کے خدوخال کو بدل کر رکھ دیا ہے، بلکہ اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ فرینڈلی اپوزیشن کے تعاون سے جمہوریت اور گورننس کا جو جنازہ نکلا ہے، اس نے عوام کے دلوں اور ذہنوں میں جمہوریت کے تصور کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان سیاست دانوں کا بھی جو قومی دولت کو لوٹنے میںپیش پیش تھے اور اب بھی ہیں۔
اب میثاق جمہوریت کے طفیل فرینڈلی اپوزیشن کا کردار پی پی پی کر رہی ہے۔ یہ وہ پارٹی ہے جس کی بنیاد جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے چالیس سال قبل رکھی تھی اور شب وروز محنت کرکے اس کو عوامی پارٹی بنا یا تھا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوںنے اپنے دور اقتدار میں عوام کی بھلائی کے لیے ٹھوس منصوبے تشکیل دیئے تھے جس کی وجہ سے عوام کو روزگار کی صورت میں مالی فوائد بھی ملے۔ اسٹیل مل، پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور عام پاکستانیوں کے لیے پاسپورٹ کا اجراء ان کے چند اہم ترین روشن کارناموں میں سے ایک ہیں۔ 1971ء کی جنگ کے نتیجہ میں پاکستان ٹوٹ چکا تھا، (بھارتی جارحیت کی وجہ سے) جسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا کارنامہ جناب بھٹو مرحوم نے انجام دیا تھا، لیکن اب یہی پارٹی نہ تو جناب بھٹو مرحوم کے نظریات اور منشور پر عمل پیرا ہے اور نہ ہی عوام کی معاشی بھلائی وبہبود کے لئے کام کررہی ہے ، بلکہ دن رات میاں نواز شریف کی حکومت کو سہارا دے کر اپنے اوپر مزید بدنامی مول لے رہی ہے، اور ''منتخب‘‘ اسمبلیوں کی صورت میں موجود برائے نام جمہوریت کو بھی داغ دار کررہی ہے۔ اس فرینڈلی اپوزیشن (جس کا دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں کوئی تصور موجود نہیں ہے) کی وجہ سے بیوروکریسی کو بھی لوٹ مار کا نادر موقع میسر آگیا ہے اور ''طاقت کا یہ اصلی سرچشمہ ‘‘ قانون کی تمام 
پابندیوں کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے حکومت وقت کو گمراہ کررہا ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے وہ طبقہ سب کچھ کررہا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہئے، اور اس کے ساتھ ہی فرینڈلی اپوزیشن سے بھی ملا ہوا ہے تاکہ بیلنس قائم رہے‘ دونوں خوش رہیں اور ان کی باز پرس نہ ہو سکے۔ اس فرینڈلی اپوزیشن کی وجہ سے ہی ملک میں قانون کی بالادستی اور معاشرے میں انصاف کا آسانی سے حصول تقریباًنا پید ہوچکا ہے۔ قانون کی اہمیت اور افادیت کو ختم کرنے اور مملکت خداداد کو عدم استحکام کی صورت میں اس نہج پر پہنچانے میں فرینڈلی اپوزیشن کا بنیادی کردار ہے۔ جب ان پر میڈیا تنقید کرتا ہے تو یہ عناصر عوام کو مارشل لاء سے ڈراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح جمہوریت پٹری سے اترجائے گی حالانکہ یہ عناصر اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کو تباہ کرنے اور لنگڑی لولی جمہوریت کی حیثیت کو بھی متنازعہ بنا کر غیر موثر بنانے میں انہی عناصرکا کردار ہے، چنانچہ مسلم لیگ (ن) والے اب کس منہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کا معاشی بحران انہیں ورثے میں ملا ہے؟ اور اس ورثے کی خرابی کو دور کرنے میں ایک عرصہ لگ جائے گا۔ کاش ان میں اتنی اخلاقی جرأت ہوتی اور تسلیم کرتے کہ یہ سب کچھ ہماری اپنی منصوبہ 
بندی سے ہوا ہے، نہ ہم فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ، نہ ہی یہ دن دیکھنے پڑتے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے پر مجھے بتایا کہ ''فرینڈلی اپوزیشن کرکے ہم نے پارلیمانی جمہوریت کا نہ صرف مذاق اڑایا ہے، بلکہ تمام موثر اداروں کوبھی تباہ کردیا ہے۔ دراصل سیاست دانوں نے میثاق جمہوریت اور فرینڈلی اپوزیشن کے ذریعہ عوام کے حقوق پر کھلا ڈاکہ ڈالا ہے، ہم نے ان کے لیے آسانیاں پید ا نہیںکیں اور نہ ہی انہیں سماجی تحفظ دیا ہے، جس کی وجہ سے عوام نہ صرف جمہوریت کے نام سے بیزار ہوگئے ہیں بلکہ سیاست دانوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے جمہوریت کانام لے کر عوام کو مسلسل دھوکہ دے رہے ہیں‘‘۔ پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کے سلسلے میں مارشل لاء آئے نہ آئے لیکن کسی نہ کسی کو ملک کو بچانے اور اداروں کی ٹوٹ پھوٹ اور بے لگام کرپشن کو روکنے کے لیے آگے بڑھنا ہی ہوگا۔ ملک میں حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن کی ملی بھگت سے معاشرے میں جوانار کی پھیلی ہے اور جس طر ح دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں، اس امر کا متقاضی ہے کہ اسے روکنے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کے علاوہ حکومت کی کارکردگی کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کے انسداد کے سلسلے میں مثبت نتائج عوام کے سامنے آسکیں ورنہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے سبب تمام تدبیریں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں