ہر سال کی طرح اس سال بھی آج (5فروری) یومِ کشمیر پورے جوش و خروش سے منایا جارہا ہے۔ یومِ کشمیر منانے کا اعلان میاں محمد نواز شریف نے 1990ء میں جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، آزاد کشمیرکے رہنمائوںسے مشاورت کے بعدکیا تھا۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی بڑی واضح ہے۔۔۔۔ پاکستان مقبوضہ کشمیرکے عوام کے حق خود ارادیت کی مسلسل اخلاقی، سیاسی اورسفارتی مدد کرتا رہے گا۔ مقبوضہ کشمیرکے عوام بھی اس دن بھارت کے تسلط کے خلاف اوراپنے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے لئے اپنی جد وجہد جاری رکھنے کا تجدید عہدکرتے ہیں، ریلیاں منعقد کرکے کشمیرکازکو زندہ رکھتے ہیں۔ اب تک مقبوضہ کشمیرکے عوام نے اپنے حقوق اور آزادی کے لئے ایک لاکھ سے زائد انسانوں کی قربانیاں دی ہیں جس میں نوجوان ، بزرگ مرد اور عورتیں شامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی بے پناہ قربانیوں کی وجہ سے یہ مسئلہ عالمی سطح پر زندہ ہے اور اسی مسئلے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان اب تک پائیدار امن قائم نہیںہوسکا۔ گزشتہ سال میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس مسئلے کو اٹھایا تھا اور ایک بار پھر یہ اعلان کیا تھاکہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کی اخلاقی، سیاسی اورسفارتی مدد کرتا رہے گا،عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے کو حل کرنے میں اپناکردار ادا کرے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج قائم ہے کیونکہ دسمبر 2014ء کے ریاستی انتخابات کے بعدکسی پارٹی کو اکثریت نہیں مل سکی، لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان سمجھوتہ ہونے والا ہے جس کی بنیاد پر وزیراعلیٰ پی ڈی پی کا ہوگا۔ پی ڈی پی میں بعض منتخب ارکان کا خیال ہے کہ بی جے پی کے ساتھ سیاسی اتحادکشمیری عوام کی جدوجہد پر منفی اثرات مرتب کرے گا کیونکہ بی جے پی ایک ہندو پرست جماعت ہے جو کسی بھی صورت میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ان کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہوگی۔
دسمبر 2014ء کے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے عام انتخاب میں وزیراعظم مودی نے دو مرتبہ دورہ کیا تھا اور ریاست کی بیوروکریسی اور جموں میںہندوئوں کے ساتھ مل کر کوشش کی تھی کہ کسی طرح بی جے پی کی اکثریت مل جائے۔ ان کا نعرہ مشن 44 تھا جو ناکام ہوگیا ؛ تاہم بی جے پی کو 25 سیٹیں ملی ہیں جو زیادہ تر ہندو بیلٹ سے ہیں۔ پی ڈی پی کو 28سیٹیں ملی تھیں، اگر بی جے پی اور پی ڈی پی دونوں مل کر مقبوضہ کشمیر میں حکومت بنانے پر رضا مند ہوجاتی ہیں توکیا مقبوضہ کشمیر میں حالات بدل سکتے ہیں؟ کیا آزادی کی تحریک ختم ہوسکتی ہے؟ اورکیا حریت کانفرنس اپنے سیاسی ومعاشی ایجنڈے سے دستبردار ہوکر بی جے پی اور پی ڈی پی کی حکومت کی تائید کرے گی؟ ان سوالات کا جواب تو وقت ہی دے گا ، لیکن میرے خیال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوگی کیونکہ پی ڈی پی کے انتخابی منشور میں بڑی وضاحت کے ساتھ کشمیری عوام کی آزادی اور خودمختاری کا اعلان کیا گیا ہے۔ مزید برآں، وزیراعظم نریندر مودی کی دیرینہ خواہش ہے کہ کسی طرح بھارت کے آئین میں مقبوضہ کشمیر کے خصوصی اسٹیٹس سے متعلق شق 370کو ختم کرکے اس کو بھارت کا حصہ بنادیا جائے۔ پی ڈی پی کے لئے بی جے پی کی یہ تجویز ناقابل قبول ہوگی،لہٰذا مقبوضہ کشمیرکا موجودہ اسٹیٹس برقرار رہے گا۔ اگر بی جے پی مقبوضہ کشمیر کا اسٹیٹس ختم کرنے میں کامیاب ہو گئی تب بھی کشمیر میں آزادی کی شمع نہیں بجھے گی بلکہ اس میں مزید تیزی آئے گی۔ دسمبر 2014ء کے عام انتخابات میں رائے دہندگان نے بڑی تعداد میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا تھا، اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ بی جے پی سرینگر میں زیادہ ووٹ نہ لے سکے اور یہی ہوا۔ حریت کانفرنس نے بظاہر مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن ان کے کارکنوں نے پی ڈی پی کو ووٹ دیے تھے۔ بھارت کے ایک انگریزی اخبار نے پی ڈی پی اور بی جے پی کے مابین سیاسی اتحاد اور حکومت بنانے کے سلسلے میں لکھا ہے:
The PDP also believes it will have to be very cautious and "de-fang" the BJP while in alliance. This will mean very strong terms of engagement between the two parties. If the BJP talks of Article 370, PDP will walk out of the government
بہرحال، مقبوضہ کشمیرکی صورت حال ہنوزاس مسافرکی طرح ہے جو ایک وادی پرخار سے گزر رہا ہے جس کے پائوں لہولہان ہوچکے ہیں ؛ تاہم مقبوضہ کشمیر کے عوام خصوصاً کے ساتھ وادی کے مسلمانوں کو ایک امید یہ ہے کہ ان دو بڑی جماعتوں کے درمیان اتحاد سے گزشتہ سال سیلاب سے وادی کے مسلمانوں کو جس تباہی کاسامنا کرنا پڑا تھا اس کا مرکز کی طرف سے مخلوط حکومت کو ملنے والی معاشی امداد سے خاصا ازالہ ہوسکتا ہے، نیز اس مخلوط حکومت پر نہ صرف حریت کانفرنس اور دیگر سیاسی جماعتوں کا دبائو بدستور قائم رہے گا بلکہ آزادی کی تحریک کو مزید جلا مل سکتی ہے کیونکہ بی جے پی مقبوضہ کشمیر خصوصیت کے ساتھ جموں میں مقامی آبادی میں تبدیلی لانے کی
کوشش کررہی ہے جس کی ہر سطح پر مزاحمت بھی ہو رہی ہے۔ مزید برآں، عوامی جمہوریہ چین بھی مقبوضہ کشمیر میں بننے والی مخلوط حکومت پر نظر رکھے ہوئے ہے، وہ بھی نہیں چاہتاکہ جموں یا لداخ میں بھارت کی طرف سے آبادی کے موجودہ تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ چین بھی اپنے طریقے سے اس کی مخالفت کرے گا بلکہ چین کے اخبار پیپلز ڈیلی نے لکھا ہے کہ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے سے کشمیر کا مسئلہ زیادہ سنگین ہوجائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے اپنا حق رائے دہی طلب کررہے ہیں۔ کشمیر ڈے مناتے ہوئے مقبوضہ کشمیرکے عوام کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ بھارت وہاں سے اپنی 7 لاکھ فوج بیرکوں میں واپس بلا لے۔ جب تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج موجود رہے گی اور نہتے کشمیری عوام پر ظلم کرتی رہے گی، اس وقت تک وہاں امن قائم نہیں ہوسے گا اور نہ ہی بھارت اور پاکستان کے مابین خوشگوار تعلقات قائم ہوسکیں گے ۔ خود بھارتی وزیراعظم کو اس بات کا احساس ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی سے کشمیر کا تنازع سنگین ہوتا جارہا ہے جس کا سیاسی حل نکالنا ہوگا۔ ظاہر ہے، مقبوضہ کشمیر کے سب سے بڑے فریق پاکستان اور بھارت کے علاوہ کشمیری عوام بھی ہیں جن کو مذاکرات میںشامل کیے بغیر مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے صحیح کہا تھا کہ کشمیر پاکستا ن کی شہ رگ ہے۔