پیپلز پارٹی کا مستقبل

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ پارٹی مضبوط اور متحد ہے، شاید وہ یہ سب کچھ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ان کے خدمت گزار کارکنوں کے حوصلے بلند کئے جاسکیں، اور وہ بددل یا مایوس ہوکر کسی دوسری پارٹی میں جانے کا نہ سوچیں، لیکن شاید زرداری صاحب کو زمینی حقائق کا علم نہیں ہے، اگر ہے بھی تو وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ پارٹی بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد تقسیم ہوچکی ہے۔ پی پی پی کا ایک دھڑا بے نظیر بھٹو کے مرنے کے بعد بھی ان سے والہانہ عقیدت رکھتا ہے، یہی دھٹرا آصف علی زرداری سے‘ جب وہ پاکستان کے صدر کی حیثیت سے مملکت خدادا د کی ''خدمت‘‘ کر رہے تھے، بے نظیر کے قاتلوں کا پتہ چلانے اور انہیں عدالت کے کٹہرے میں لانے کا مسلسل مطالبہ کرتا رہا ہے اور یہ لوگ اب بھی ارباب حل و عقد سے یہ مطالبہ کررہے ہیں لیکن نہ تب کچھ ہوا‘ نہ اب ہی کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پی پی پی کا یہی دھڑا بے نظیر کے مشن کو زندۂ جاوید رکھنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے پی پی پی کو عوامی سطح پر مقبول بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس دھڑے میں صفدر عباسی اور ان کی اہلیہ ناہید خاں پیش پیش ہیںاور تمام خطروں کے باوجود بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے مشن کو عوامی سطح پر ازسر نو متعارف کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسرا دھڑا مفاد پرستوں‘ کا سہ لیسی کرنے والوںاور موقع پرستوں پر مشتمل ہے۔ اس دھڑے نے قومی وسائل کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی اور آج بھی پی پی پی کی صوبائی حکومت میںیہ عناصر ہر سطح پر شامل ہوکر اسی قسم کی سرگرمیوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کی حکومت کی کارکردگی نہ صرف نا قص ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ دھڑا آصف علی زرداری کے سامنے ان کی اور ان کی سیاسی بصیرت کی تعریف کرتے نہیں تھکتا‘ بلکہ کسی میں اتنی جرات نہیں ہے کہ انہیں پارٹی سے متعلق حقائق بتائے تاکہ کارکنوں میں نیا جوش وجذبہ پیدا کیا جاسکے، پی پی پی کا تیسرا دھڑا غنویٰ بھٹو کا ہے، جو بڑی بہادری، جرأت اور جانفشانی سے اپنے مقتول شوہر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا اٹھارہ سالوں سے مقدمہ لڑرہی ہیں، لیکن ہنوز کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ وہ ان کے قاتلوں کو عدالتوں کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کررہی ہیں ان کا بیٹا ذوالفقار علی جونیئر آج بھی پی پی پی کے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنا ہوا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ وہ حالات کے نا قابل ذکر ''جبر‘‘ کی وجہ سے کارکنوں کے سامنے آنے سے فی الحال گریزاں ہے۔ ان کی بہن فاطمہ بھٹو عالمی شہرت یافتہ رائٹر ہیں اور اپنے دادا ذوالفقار علی بھٹو کی ذہانت اورفراست کی مکمل تصویر ہیں، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سے بھی آگے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگر کسی وقت فاطمہ بھٹو اپنی والدہ اوراپنے بھائی ذوالفقار علی جونیئر کے ہمراہ عوامی سیاست کرنے کا عہد کرتی ہیں اور عملی سیاست میں آجاتی ہیں تو پی پی پی کے کارکنوں اور ہمدردوں کی اکثریت ان کے ساتھ شامل ہوجائے گی، بلکہ وہ انتخابات جیتنے کے بعد اقتدار میں بھی آسکتی ہیں۔ جہاں تک بلاول زرداری کا تعلق ہے ، وہ اپنے والد کے برعکس ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے جو جدید ذہن کا حامل ہونے کے علاوہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں اپنے مخصوص خیالات رکھتا ہے، اور اس کی کوشش ہے کہ پارٹی میں دھڑے بازی کو ختم کرکے ایک مضبوط پارٹی تشکیل دی جائے۔ وہ اپنے کزنز سے بھی اچھے مراسم استوار کرنا چاہتا ہے، جس کی بنا پر اس کے اور اس کے والد کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ بلاول کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پی پی پی کی عبرتناک شکست بھی حکومت کی ناقص کارکردگی اوربے پناہ کرپشن کی وجہ سے ہوئی تھی، اور اس کی تمام تر ذمہ داری پی پی پی کے رہنمائوں پر عائد ہوتی ہے، جو پارٹی کے بجائے کرپشن کے ذریعہ اپنے آپ کو مالی طور پر مضبوط کررہے تھے۔ بلاول زرداری اس صورتحال کو اپنے انداز میں ٹھیک کرنے کے لئے فری ہینڈ چاہتا ہے، جو شاید اس کو فی الحال نہ مل سکے۔ 
بلاول زرداری کوآئین میں کی جانے والی 21ویں ترمیم پر بھی اعتراض ہے جبکہ زرداری صاحب اس کی حمایت کررہے ہیں؛ تاہم یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ پی پی پی کے نظریاتی کارکن مایوس ہوکر علیحدہ ہوگئے ہیں۔ اس وقت پارٹی نظریات کی بنیاد پر کام نہیں کررہی۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت گزشتہ چھ سالوں میں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ کراچی میں آپریشن ہو رہا ہے، لیکن قتل و غارت گری مسلسل جاری ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ عام آدمی کے علاوہ پولیس کے اہل کاروں کو بھی قتل کیا جارہا ہے۔ اس افسوسناک صورتحال کو روکنے یا اس میں اصلاح لانے کا جذبہ نہ تو وزیر اعلیٰ سندھ میں نظر آرہا ہے، اور نہ ہی ان کے وزراء میں! یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم اور اے این پی کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس ضمن میں اے این پی کے رہنما شاہی سید نے صحیح کہا ہے کہ اس وقت بھی کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں سے کروڑوں روپے کا بھتہ وصول کیا جارہا ہے، جس میں بعض سیاست دانوں کے علاوہ پارٹی کے فرنٹ مین بھی شامل ہیں۔ اگر سندھ حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی عزم صمیم سے کوشش کرے اور لااینڈ آرڈر کی صورتحال میں جو بگاڑ پیدا ہوچکا ہے، اس کو آہنی ہاتھوں سے ٹھیک کرنے کی کوشش 
کرے تو ایک بار پھر پی پی پی کا پاکستان کی سیاست میں بھرم قائم ہوسکتا ہے، لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ہوسکتا ہے جب پارٹی میں وسیع تر بنیادوں پر اتحاد قائم ہو‘ جو اس وقت ناپید ہے، اور پی پی پی ہر سطح پر تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ کیا یہ سیاسی المیہ نہیں کہ ایک بڑی پارٹی جو محنت کش طبقوں کی حمایت سے بام عروج پر پہنچی تھی، اب سکڑ کر سندھ تک محدود ہوگئی ہے اور تقسیم بھی ہوگئی ہے؟ 
آصف علی زرداری کو اس انتہائی صورتحال پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور اپنے رفقاکے مشوروں سے اس کو ایک بار پھر عوامی پارٹی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دراصل اب پاکستان وہ نہیں ہے جو 40سال قبل تھا جب بھٹو صاحب نے محروم طبقوں کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے روٹی، کپڑا، اور مکان کے پر کشش معاشی نعرے کے ذریعے انہیں اپنی طرف کھینچا تھا اور بہت حد تک انہوںنے اس پسے ہوئے طبقے کے مسائل کوحل کرنے کی بھر پور کوشش بھی کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 40سال گزر جانے کے باوجود پاکستان کی پرانی نسل بھٹو صاحب کو نہیں بھولی، جبکہ نئی نسل بلاول زرداری سے اپنے سماجی ومعاشی حالات بدلنے کی صورت میں بہت سی امید یں وابستہ کر بیٹھی ہے۔ بلاول زرداری اس حقیقت کا ادراک رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ پارٹی میں دھڑے بندی کے خلاف ہے اور اس کو ختم کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے، تاہم پی پی پی کے لئے نئے چیلنج بہت بڑے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تدبر اور فراست کی ضرورت ہے جو صرف اور صر ف پارٹی کے تمام دھڑوں کے مابین اتحاد سے پیدا ہوسکتا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں