کجری وال کیوں جیتے؟

عام آدمی پارٹی کے رہنما کجری وال نے دہلی کے عام انتخابات میں 67نشستیں حاصل کرکے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ان کے خلاف بی جے پی کے علاوہ کانگریس نے بھی اپنے امیدوار میدان میں اتارے تھے، لیکن اصل مقابلہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان تھا۔ دہلی کے بہت سے صحافیوں‘ جن سے میرا ٹیلی فون کے ذریعہ رابطہ ہوا تھا، کا یہ کہنا تھا کہ کجری وال اور کرن بیدی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ نظر آرہا ہے، لیکن دہلی کے ایک عام غریب آدمی کا جھکائو کجری وال کی طرف معلوم ہوتا ہے جو گذشتہ سال کچھ دنوں کے لئے دہلی کے وزیراعلیٰ رہ چکے تھے، لیکن پھر بھی حتمی طور پر کسی پارٹی کے جیتنے کے سلسلے میں پیش گوئی کرنا مشکل مسئلہ ہے، تاہم مجھے بعض تجزیہ کاروں کی عام آدمی پارٹی سے متعلق ممکنہ کامیابی کے سلسلے میں کی جانے والی پیش گوئی پر خاصی حیرت ہوئی تھی، لیکن بعد میں دہلی کے انتخابی نتائج نے ثابت کردیا کہ ان کی سیاسی بصیرت درست تھی۔
یقینا دہلی میں عام آدمی پارٹی کی فتح سے نریندرمودی کے فلسفے پر ایک کاری ضرب لگی ہے جس کے تحت وہ بھارت کو ایک ہندو ملک بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور جس کی وجہ سے بھارت کی تمام اقلیتوں میں خوف اور عدم تحفظ کی فضا چھا گئی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں میں جو بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، (تقریباً 24 کروڑ)۔ چنانچہ دہلی کے عام انتخابات میں مسلمانوں، کریسچن اور سیکولر بھارتیوں اور دانشوروں نے نہ صرف عام پارٹی کی حمایت کی بلکہ بڑھ چڑھ کر ان کے انتخابی جلسوں میں شرکت کرکے اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا۔ کجری وال نے اپنے انتخابی جلسوں میں بڑے اعتماد کے ساتھ کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہونے والے مظالم کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائیں گے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے جبکہ بی جے پی کے جلسوں میں نریندرمودی کے معاشی میدان خصوصاً گجرات میں معاشی ترقی کے حوالے سے ترانے گائے جارہے تھے، اور ووٹر ز کو یقین دلایا جارہا تھا کہ دہلی کے بنیادی مسائل مثلاً بجلی اور پانی کی فراہمی پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرکے عوام کو زبردست سہولتیں پہنچائی جائیں گی، لیکن بی جے پی کی گذشتہ ایک سال کی کارکردگی سے دہلی کے عوام کو یہ یقین ہوچلا ہے کہ نریندرمودی اقتصادی ترقی کے نام پربھارت کو ایک ایسی ڈگر پر لے جارہا ہے ، جہاں اکثریت اور اقلیتوں کے درمیان تصادم ناگزیر بنتا جارہا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف نریندرمودی کے حواریوں آر ایس ایس کا رویہ بھارت کے اتحاد کو اندر سے پارہ پارہ کررہا ہے۔ مودی حکومت کی مسلمان دشمنی کی سوچ نے جہاں بھارتی آئین کے تحت اقلیتوں کو ملنے والی معاشی، سماجی ،ثقافتی اور تحفظ کی خلاف ورزی کی ہے تو دوسری طرف بھارت کے سیکولر مزاج کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ بھارت کی سالمیت اور اندرونی اتحاد سیکولرازم سے وابستہ و پیوستہ ہے جسے مودی نے اپنی تنگ نظری اور متعصبانہ سوچ سے گہن لگا دیا ہے۔ نیز گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفے کی بھی کھلم کھلا نفی کی جارہی ہے اور اس پر کاری ضرب لگائی ہے۔ یہی وہ بنیادی اسباب تھے جن کی وجہ سے بی جے پی کو دہلی کے عام انتخابات میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ مودی خود بی جے پی کے انتخابی جلسوں میں اکثر موجود ہواکرتے تھے اور ووٹرز کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے تھے کہ راجدھانی کے گردونواح میں نئے کارخانوں کا جال بچھا دیا جائے گا، جس کی وجہ سے بے روزگاری ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ بی جے پی ان کی دشمن نہیں ہے بلکہ ان کی بہتری کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی، لیکن ان تمام وعدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود بی جے پی دہلی میں عام آدمی پارٹی سے مقابلے میں بری طرح ہاری ہے۔ اسے صرف تین نشستیں ملی ہیں ، جبکہ راجیہ سبھا میں پہلے ہی بی جے پی اقلیت میں ہے ۔دہلی کے عام انتخابات میں ایک دلچسپ بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ کارپوریٹ سیکٹر نے اس میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ بی جے پی کو ان کی طرف سے انتخابی مہم چلانے کے سلسلے میں زیادہ پیسہ بھی نہیں مل سکا تھا ، جیسا کہ گذشتہ سال کے عام انتخابات میں ملا تھا۔ کارپوریٹ سیکٹر کی اس وقت تمام تر توجہ بھارت کے وفاقی بجٹ پر ہے، جو اس ماہ کے آخر میں پیش کیا جائے گااور جس میں وہ زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے، لیکن عام آدمی پارٹی یا ان کے علاوہ لوک سبھا میں دیگر سیاسی طاقتوں کی موجودگی کے باعث بھارت کے استحصالی طبقے کارپوریٹ سیکٹر اور سرمایہ داروں کو وہ مراعات نہ مل سکیں جن کے لئے وہ کوشش کررہے ہیں اور دن رات مودی کی معاشی پالیسیوں کی اخبارات میں تشہیر کرنے سے نہیں چوکتے، تاکہ انہیں وفاقی بجٹ میں زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل ہوسکیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کجری وال بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات اٹھائیں گے؟ اس وقت مسلمان، کریسچن اور سماج کے دیگر طبقات اپنی معاشی محرومیوں کے علاوہ اپنی جان ومال ، عزت و آبرو کے سلسلے میں بہت زیادہ پریشان اور متفکر ہیں۔ راجدھانی میں بیٹھ کر کجری وال محروم طبقوں کی ایک اہم آواز بن سکتے ہیں اور مودی حکومت کے خلاف جو اقلیتوں کے لئے تشویش کا باعث بن رہی ہے، زبانی اور عملی طورپر مزاحمت کریں گے۔ اس بنیاد پر ہی انہوں نے دہلی کا انتخاب جیتا ہے۔ وہ اقلیتوں کے احساسات کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔ دہلی کے ان انتخابات میں کانگریس کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ کانگریس گذشتہ پندرہ سال سے دہلی میں راج کررہی تھی۔ اسے امید تھی کہ ان انتخابات میں اسے کچھ نشستیں ضرور ملیں گی۔ راجیوگاندھی اور سونیا کا بیٹا راہول گاندھی ان انتخابات میں گذشتہ کئی دنوں سے انتخابی مہم میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لے رہا تھا اور ووٹروں سے وعدہ کررہا تھا کہ ان کے سماجی حالات میں صرف کانگریس ہی تبدیلی لا سکتی ہے۔ دہلی کے ووٹروں نے ان کی ان انتخابی یقین دہانیوں پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی اعتماد کیا۔ کیونکہ پندرہ سالوں سے دہلی پر حکومت کرنے کے باوجود دہلی کے عوام بجلی اور پانی کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ دہلی کے ریاستی انتخاب میں کانگریس کی عبرتناک شکست اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ بھارت میں آئندہ Nehru Dynastyکا خاتمہ ہوگیا ہے۔ فی الوقت حتمی طورپر اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا ہے، لیکن بھارت کی سیاست میں اب نمایاں تبدیلی آچکی ہے، جہاں بھارت میں اب نریندرمودی کی صورت میں انتہا پسندی فروغ پارہی ہے، وہیں عام آدمی پارٹی کی شکل میں نوجوان قیادت سیکولرازم کی سوچ کے ساتھ اور اقلیتوں کے تحفظ کے لئے آگے بڑھ رہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں