امریکی صدر کے کہنے پر نریندرمودی نے کرکٹ کے حوالے سے پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے گفتگو کی اور کہا کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ سارک ممالک کی یاترا کرتے ہوئے پاکستان آکر اپنے ہم منصب سے ملاقات کرکے دونوں ملکوں کے مابین مسائل پر بات چیت کریں گے۔ پاکستانی میڈیا نے اس خبر کو نمایاں طورپر شائع کیا اور عندیہ دیا کہ ''برف پگھل رہی ہے‘‘، حالانکہ بھارتی سیکرٹری خارجہ کی آمد سے برف پگھلنے کا تاثر نہ صرف غلط ہے بلکہ احساس کمتری کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ نریندرمودی نے ایک بار پھر پاکستانی وزیراعظم پر اس حقیقت کو آشکار کردیا ہے کہ بھارت پاکستان کو سارک کے دیگر ممالک کے مساوی حیثیت دیتا ہے اور اس کی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ سارک کے دیگر ممالک کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان بھی آئیں گے۔
قارئین کو یادہوگا کہ میں نے اپنے ایک کالم میں میاں نواز شریف سے درخواست کی تھی کہ وہ مودی کی تقریب حلف برداری کے موقع پر بھارت نہ جائیں، بلکہ کسی اور موقعے پر بھارت جانے کی حسرت پوری کرلیں کیونکہ مودی نے سارک کے دیگر ممالک کے سربراہان کو اس موقعے پر مدعو کیا تھا ، اور وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ بھارت پاکستان کو سارک کے دیگر ممالک کے برابر حیثیت دیتا ہے اور اسی نظر سے دیکھتا ہے، چنانچہ نریندرمودی کے اس طرز عمل سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوجائیں گے‘ ایک واہمہ ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، نیز اگر بھارت کو پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی اتنی ہی خواہش ہوتی تو لائن آف کنٹرول اور انٹرنیشنل ورکنگ بائونڈری پربلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری نہ رہتا۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کے کارکن بھارتی فوجیوں کے ساتھ ملکر مسلمان نوجوانوں کو ''دہشت گرد‘‘ ہونے کے شبے میں گرفتار کرا رہے ہیں۔ ایک کشمیری نوجوان فاروق کو گذشتہ دنوں بھارتی فوج نے بڑی بے دردی سے قتل کردیا‘ جس کی وجہ سے پوری وادی میںاحتجاج اور ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ ان ہنگاموں کو روکنے کے لئے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے مظاہرین پربے پناہ تشدد کیا ہے؛ تاہم ابھی تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں اور پولیس کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ بی جے پی کے بعض سیاست دانوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ مظاہرے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کرارہی ہے تاکہ وہاں مخلوط حکومت تشکیل نہ ہونے پائے۔ یہ پروپیگنڈا بھی کیا جارہا ہے کہ سرینگر میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما ہونے والا ہے، جس میں پاکستان کا خفیہ ہاتھ شامل ہوگا۔ بی جے پی کی جانب سے تسلسل کے ساتھ پاکستان اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے خلاف کئے جانے والے پروپیگنڈے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ بھارت اس خطے میں امن کا خواہش مند نہیں ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کرکے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو قائم رکھنا چاہتا ہے بلکہ جنگ کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کی پاکستان دشمن سوچ کا مظاہرہ گزشتہ دنوں دہلی کی ''جواہرلال یونی ورسٹی‘‘ میں بھی دیکھنے میں آیا جہا ں مسئلہ کشمیر سے متعلق یونی ورسٹی کے ایک ہال میں سیمینار ہورہا تھا، جس میں دہلی کے ممتاز لکھاریوں کے علاوہ کشمیری دانشور شرکت کررہے تھے۔ ابھی کشمیرسے متعلق سیمینار کا آغاز ہوا ہی تھا کہ بی جے پی کی کئی طلبا تنظیمیں، اکھل بھارتیہ ، دویا رھنی پرنشید اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے کارکنوں نے سیمینار کے شرکا پر حملہ کردیا اور پروفیسر عبدالرحمن گیلانی کو زدو کوب کرنے کی کوشش کی، حالانکہ کشمیر سے متعلق یہ
سیمینار یونی ورسٹی کی انتظامیہ کی پیشگی اجازت سے منعقد ہورہا تھا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پروفیسر عبدالرحمن گیلانی کو افضل گوروکے ساتھ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے منصوبے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ آر ایس ایس کے غنڈوں نے سیمینار کے منتظمین پر الزام عائد کیا ہے کہ کشمیر سے متعلق یہ سیمینار بھارت کے آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے، اور اس کے انعقاد کے پیچھے بھی پاکستان کا ہاتھ ہے۔
دراصل نریندرمودی اور ان کے انتہا پسند حواریوں کے دل و دماغ میں آئی ایس آئی کا خوف سما گیا ہے۔ بھارت کے اندر ہونے والی ہر گڑبڑ کے حوالے سے پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے۔ بھارت کی اس پاکستان دشمن سوچ کے ہوتے کس طرح ان دونوں ملکوں کے درمیان اچھے روابط قائم ہوسکتے ہیں؟ پھر اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں‘ خاص طور پر فاٹا اور بلوچستان‘ میں جو دہشت گردی ہورہی ہے، اس میں بلا شبہ بھارت کا ہاتھ ہے۔ پاکستان کی حکومت نے متعدد بار امریکہ سمیت کئی ملکوں کو یہ باور کرایا ہے کہ بھارت نہیں چاہتا کہ کسی بھی طرح اس خطے میں قیام امن کے امکانات روشن ہوں اور اگر اس کے
ذہن میں ایسی کوئی سوچ ہوتی تو وہ یقینا تحریک طالبان پاکستان اور دیگر پاکستان دشمن تنظیموں کی فنڈنگ نہ کرتا۔ بھارت کا مقصد بہت واضح ہے اور سامنے آچکا ہے، یعنی پاکستان کے خلاف (بھارت کی جانب سے مسلط کردہ )پراکسی وار جاری رہنی چاہے تاکہ پاکستان کمزور ہوسکے اور اس کی معیشت کی بحالی کی تمام تدابیر ناکام ہوجائیں، چنانچہ کسی بھی پاکستانی کو موجودہ بھارتی حکومت کی طرف سے امن کی امید قائم رکھنا پانی پر نقش بنانے کے مترادف ہے۔
اگر بھارتی سیکرٹری خارجہ سارک ممالک کے دورے کے بعد پاکستان آتے ہیں تو ان کی آمد اور پاکستان کی وزارت خارجہ کے حکام سے متوقع بات چیت سے کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟ دراصل پاکستان کو بھارت سے مذاکرات کی رٹ لگانے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے گھر کو ٹھیک کرے۔ جو لوگ اس وقت حکومت کررہے ہیں ان کا دیژن محدود ہے اور چونکہ وہ دھاندلی کے ذریعہ اقتدار میں آئے ہیں اس لئے ان سے یہ امید رکھنا کہ یہ لوگ ملک کے استحکام اور خصوصیت کے ساتھ قومی معیشت کی ترقی و تعمیر کے لئے کوئی کام کریں گے، امیدِ موہوم ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کا سارک کے دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ کرنا بھی انتہائی نامناسب ہے۔ پاکستان 19کروڑکی آبادی کا ملک ہے جس کی افرادی قوت بہترین صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ اگر بھارت پاکستان میں مداخلت بند کردے تو پاکستان ترقی میں بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔