سنیچر کے روز تربت (بلوچستان) میں بیس محنت کشوں کو دہشت گردوں نے قتل کرکے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ وہ اپنے آقائوں کی مالی مدد کے ذریعے وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں جو پاکستان کی معاشرے اور معیشت کو بر بادکرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ان غریب ، مفلس اور معصوم محنت کشوں کا تعلق پنجاب اور سندھ کے قحط زدہ علاقے تھر سے تھا۔ انہیں ایک بلوچی ٹھیکہ دار ماہانہ اجرت پر اپنے ساتھ تربت لے گیا تھا جہاں ہفتے کی شب سفاک بھیڑیوں نے انہیں قتل کرکے ابدی نیند سلادیا۔ دہشت گروں کی تعداد چودہ بتائی جارہی ہے، جب یہ درندے مزدوروں کے کیمپ پر حملہ کرنے آئے تو اس وقت لیویز کے آٹھ جوان موجود تھے جنہوں نے مزاحمت نہیں کی بلکہ فائرنگ شروع ہوتے ہی فرار ہوگئے۔ حکومت بلوچستان نے لیویز کے ان آٹھ افراد کو گرفتار کرلیا ہے، جن سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ بلوچی ٹھیکہ دار جو ان مزدورں کو تربت لے گیا تھا، ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا؛ حالانکہ ان مزدوروں کی حفاظت کی ذمہ داری اس پر بھی عائدہوتی تھی۔ بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ مزدوروں کے اس بہیمانہ قتل کے پیچھے بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کا ہاتھ ہے جو طویل عرصہ سے دہشت گردوں کی پاکستان کے خلاف کی جانے والی مذموم کارروائیوں میں مالی مدد کر رہی ہے اور صوبے میں نام نہاد
علیحدگی کی تحریک کی پشت پنا ہی کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ سانحہ لیویز کی غفلت کی بنا پر ہوا ہے جنہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ حکومت بلوچستان نے شہید مزدوروں کے لواحقین کے لئے 10لاکھ روپے اور زخمی ہونے والوں کے لئے 50ہزار روپے فی کس مختص کئے ہیں۔ پاکستان کی تمام ذمہ دار مزدور یونینوں نے تربت میں بیس مزدوروں کے قتل پر اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ دہشت گردوں کو فی الفورگرفتار کرکے عبرتناک سزائیں دی جائیں۔
تربت میں معصوم محنت کشوں کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس سے قبل اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، جن میں محنت کشوں کو لسانی بنیادوں پر قتل کرکے جنونیت اور نسل پرستی کے جذبات پھیلا کر پاکستان کی وحدت اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے؛ حالانکہ ایک عام بلوچی کی ایسی سوچ نہیں ہے۔
بلوچستان میں حالات ابھی تک اس لیے نہیں سدھر سکے کہ یہاں لیویز کے نظم و نسق اور تنخواہ براہ راست سرداروں کے ذریعہ ادا کی جاتی ہے۔ یہ سردار جن میں بیشتر پاکستان سے متعلق اچھے جذبات نہیں رکھتے، بالواسطہ طور پر بلوچستان کے بعض علاقوں میں جاری افراتفری میں شامل ہیں۔ یہ سردار (سب سردار ایسے نہیں ہیں) لیویزکو اپنا نوکر اور غلام سمجھتے ہیں ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ لیویز کے ارکان بلوچستان کی حکومت کے کم اور سرداروں کے زیادہ وفادار ہیں۔ اگر ڈاکٹر مالک ذرا ہمت کریں اور صوبائی اسمبلی میں ایک قانون کے ذریعہ لیویز کو بلوچستان کی پولیس میں ضم کردیں تو حالات معمول پر آسکتے ہیں۔ سابق پولیس افسر شعیب سڈل نے اسی قسم کی رپورٹ پیش کی تھی، لیکن مفاد پرست عناصر نے جو اکثر و بیشتر وفاقی حکومت کو نام نہاد محرومی کے ذریعہ بلیک میل کرتے رہتے ہیں، ایسا نہیں ہونے دیا ؛ چنانچہ لیویز سرداروں کے اشارے پر کام کررہے ہیں جن کے علیحدگی پسندوں سے بھی خفیہ تعلقات بدستور قائم ہیں۔ ڈاکٹر مالک وفاق اور خود اپنی کابینہ کے وزرا کے مشوروں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوشش کررہے ہیں، لیکن انہیں ''بااثر‘‘ افراد کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اس ضمن میں بلوچی صحافیوں نے مجھے فون کر کے بتایا کہ دہشت گرد جن پہاڑوں پر روپوش ہیں، ان پر حکومت کی جانب سے کارروائی کرنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے، لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر یہ کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ اس کا جواب صوبائی حکومت دینے سے قاصر ہے۔ ایف سی بڑی ذمہ داری سے بلوچستان کے طول و ارض میں دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے، انہی کی کوششوں اور کاوشوں سے بلوچستان میں کسی حد تک حالات بہتر ہیں اور کاروبار چل رہا ہے، ورنہ ''بااثر سردار‘‘ وہ سب کچھ کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں جس کی وجہ سے وفاق کو نقصان پہنچے سکتا ہے۔
تربت میں محنت کشوں کو جس بے رحمی اور بے دردی سے قتل کیا گیا ہے ، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، یہ عمل خود بلوچیوں کے منہ پر ایک تازیانے سے کم نہیں ، بلوچی نوجوان جو اکثر اپنی بات چیت میں لینن اور مارکس کا حوالہ دیتے ہیں اور مذہب سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ لینن اور مارکس کے فلسفے کی روشنی میں عوامی جدوجہد استحصالی نظام کے خلاف ہوتی ہے نہ کہ محنت کشوں کے خلاف جو نظام کو بدلنے میں ہر تحریک کا ہراول دستہ ہونے کا کام انجام دیتے ہیں۔ لیکن ان ''انقلابیوں‘‘ نے ان نہتے محنت کشوں کو قتل کرکے اپنی بزدلی اور لینن و مارکس کے فلسفے کا مذاق اڑایا ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں غیر ملک کی امداد سے تحریکیں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتیں؛ بلکہ جلد یا بدیر دم توڑ دیتی ہیں۔ یہی صورت حال بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ جلد پیش آنے والی ہے۔ جس علاقائی سامراج کے اشارے پر یہ عناصر کام کررہے ہیں، وہ خود اپنی بقا کے حوالے سے ایک بڑے سامراج کے تعاون کے خواستگار اور مرہون منت ہے۔ پاکستان کے عوام میں مزدوروں کے قتل پر نہ صرف غم و غصہ پایا جارہا ہے؛ بلکہ وہ ایسے تمام عناصر کی شدید مذمت کرتے ہیں جو چند پیسوں کے خاطر ان محنت کشوں کو قتل کررہے ہیں جو اپنی محنت و مشقت کے ذریعے بلوچستان کے ریگزاروں کو گلستان میں تبدیل کررہے ہیں۔ یہ کیسے ''انقلابی‘‘ ہیں جو استحصال کرنے والے سرداروں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان محنت کشوں کو قتل کررہے ہیں جو ان کی زندگیوں میں اپنی محنت کے ذریعے خوشحالی اور آسودگی کے اسباب فراہم کررہے ہیں۔ یہ کیسے عناصر ہیں جو خود کام نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی نہیں کرنے دیتے، ان سے متعلق ذراسوچیے اور لکھیے۔ یہ خون نا حق تھا جو رزق خاک ہوا۔