افغانستان کے صدر جناب اشرف غنی تین روزہ دورے پر بھارت پہنچ گئے ہیں، جہاں ان کا پالم ہوائی اڈے پر وزیرمملکت برائے اقتصادیات جناب سہنا نے استقبال کیا۔ افغان صدر اقتدار سنبھالنے کے سات ماہ بعد یہ دورہ کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ چین، پاکستان اور سعودی عرب کے دورے کر چکے ہیں جہاں انہوں نے سیاسی و عسکری قیادت سے افغانستان میں قیام امن کے علاوہ افغان معیشت کی بحالی کے سلسلے میں بھی بات چیت کی۔ نریندر مودی سے اپنی ملاقات میں اشرف غنی نے بڑی وضاحت سے کہا کہ افغانستان کو عدم استحکام سے بچانا اس خطے کے تمام ممالک کی ذمہ داری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف فتح ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون ہی سے حاصل ہوسکتی ہے، ایک دوسرے کے ملک کے اندرونی معاملات یا پراکسی جنگ سے نہ تو دہشت گردی کا مسئلہ حل ہوسکے گا اور نہ ہی خطے میں امن قائم ہوسکے گا۔ نریندرمودی نے جواباً کہا کہ بھارت افغانستان کی مدد کرتا رہے گا اور وہاں امن کے قیام کے سلسلے میں افغان حکومت کی ہر حکمت عملی کی حمایت بھی کرے گا۔ نریندرمودی نے یہ بھی کہا کہ بھارت اور افغانستان کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ تاہم ان زریں خیالات کے باوجود بھارت ، افغانستان میں اپنے اثرورسوخ کو کم ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے بالخصوص بھارت کو افغانستان میں چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خاصی تشویش ہورہی ہے۔ چین نے افغانستان میں 5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور آئندہ ماہ اس سرمایہ کاری میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان بھی افغانستان کی معیشت خصوصیت کے ساتھ انفراسٹرکچر کی بحالی اورتعمیر نو میں اپنا کردار ادا کررہاہے۔
جہاں تک افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں کا تعلق ہے، وہ اصل میں افغانستان کا داخلی مسئلہ ہے ؛ تاہم پاکستان نے اشرف غنی کو دورہ پاکستان کے دوران یقین دلایا تھا کہ پاکستان کی حکومت طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرسکتی ہے، جیسا کہ پاکستان نے ماضی میں بھی یہ کردار ادا کیا تھا، لیکن حامد کرزئی نے بھارت کے ایما اور اشارے پر قطر میں ہونے والے اس مفاہمتی عمل کو سبوتاژ کردیا تھا، اب دوبارہ یہ عمل شروع ہونے والا ہے۔ افغان طالبان نے اپنا دفتر قطر میں ایک بار پھر کھول لیا ہے اور چین کا بھی دورہ کیا ہے۔ امریکہ بہادر کی بھی یہی خواہش ہے کہ کسی طرح افغان طالبان کو افغانستان کی سیاست کے مرکزی دھارے میں لایا جائے تاکہ افغان جنگ کا خاتمہ ہوسکے۔ امریکہ نے پہلے ہی پاکستان کو افغانستان میں امن کے قیام کے سلسلے میں اپنا حامی بنا لیا ہے جبکہ پاکستان خلوص دل سے افغانستان میں امن کے قیام میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کا کلیدی رول ہے۔ دوسری طرف بھارت نے حامد کرزئی کی تیرہ سالہ حکومت کے دوران تحریک طالبان کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی تھی، فاٹا کے علاوہ سوات میں بھی بھارت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کی وحدت کو نقصان
پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ بھارت نے ہر سطح پر پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈا جاری رکھا ہوا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے؛ حالانکہ ساری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ کس طرح تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر معصوم پاکستانیوں کا خون بہایا۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے میں بھی بھارت ملوث تھا، لیکن چونکہ اب افغانستان میں اشرف غنی کی صورت میں ایک سمجھ دار اور خطے کے حالات پر گہری نگاہ رکھنے والا شخص مسند صدارت پر فائز ہوچکا ہے، چنانچہ اسے ادراک ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف پاکستانی فوج نے فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف ایک موثر جنگ لڑی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان کی فوج اور عوام نے پیش کی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اشر ف غنی نے بھارت میں اپنے قیام کے دوران بالکل صحیح کہا کہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، پراکسی جنگ بھی ناقابل قبول ہے۔ یقیناً ان کا اشارا بھارت اور اس کے پالیسی بنانے والوں کی طرف تھا جو بلوچستان اور فاٹا میں پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے؟ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے اشرف غنی کو بڑی وضاحت سے یہ بات گوش گزار کردی ہے کہ بھارت افغانستان میں معاشی سرگرمیوں کی آڑ میں پاکستان کے معاملات میں مداخلت کررہا ہے۔ اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنا معاندانہ رویہ نہ بدلا اور افغان حکومت بھارت کے ہاتھوں میں استعمال ہوتی رہی ، جیسے کرزئی کے زمانے میں ہورہی تھی تو اس صورت میں افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکے گا اور اس کے منفی اثرات پاکستان پربھی پڑیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان خلوص دل سے افغانستان میں امن چاہتا ہے اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اپنی خدمات بھی پیش کررہا ہے۔ پاکستان کی یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہیں، اس کا تمام تر دارومدار افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی کے رویے پر ہے۔ بھارت ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستی کو اپنے معاشی سیاسی وعسکری مفادات کے خلاف سمجھتا ہے، اس لیے اس کی تمام تر کوشش یہ ہوگی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستی نہ ہونے پائے بلکہ وہاں بھارت کا پلہ بھاری رہے۔ اشرف غنی نے نریندرمودی سے مالی مدد کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کی بھی بات کی ہے جبکہ نریندرمودی نے بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارت کے فروغ کے سلسلے میں افغان پاکستان راہداری کھولنے پر زور دیا ہے؛ تاہم میرا خیال یہ ہے کہ پاکستان کو افغان پاکستان راہداری کھولنے کے سلسلے میں بڑی احتیاط اور تدبر سے کام لینا چاہئے؛ بلکہ فی الوقت اس کو نہیں کھولنا چاہیے کیونکہ یہ راہداری کھولنے سے افغانستان کو کم اور بھارت کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ وہ اس راستے کے ذریعے پاکستان کے لیے خاصے بڑے مسائل پیدا کرسکتا ہے جس میں اس کی دہشت گردوں کی اعانت بھی شامل ہوگی۔ اس کے علاوہ بھارت، افغانستان میں چین کی معاشی سرگرمیوں کے بھی خلاف ہے۔ وہ افغانستان کی معاشی امداد میں اضافہ بھی کرنا چاہتا ہے، لیکن پھر بھی وہ اس خطے میں چین کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ چین معاشی امداد کے ساتھ امن کا بھی علمبردار ہے۔ اس خطے کے ملکوں میں چین کو سب سے زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی ہے جبکہ بھارت خطے میں اپنی چالاکیوں اور چال بازیوں کی وجہ سے ایک متنازع ملک بن چکا ہے۔ سارک تنظیم کے تمام ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ سارک تنظیم ابھی تک اس خطے کو استحکام بخشنے کے سلسلے میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کرسکی۔ اشرف غنی کو افغانستان میں امن کے وسیع تر مفادات کی روشنی میں غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنے ملک کو بھارت یا کسی دوسرے ملک کو استعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہ دیں ورنہ قیام امن کی تمام تر خواہشات نقش بر آب ثابت ہوسکتی ہیں۔