کور کمانڈر کراچی کی کھری کھری باتیں

مجھے نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی کی ایلومنائی ایسوسی ایشن سندھ چپٹر نے شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ 16مئی کو کراچی کی صورتحال خصوصاً سکیورٹی اور دہشت گردی کے حوالے سے مقامی ہوٹل میں ایک اہم سیمینار منعقد ہورہا ہے، جس میں آپ لازمی شرکت کریں‘ اس سے کورکمانڈر کراچی جنرل نوید مختار خطاب کریں گے۔ سمینار کا وقت ڈھائی بجے تھا، چنانچہ کراچی سے متعلق جہاں بھی اور جس جگہ بھی سیمینار یا بات چیت ہوتی ہے تو مجھے اس میں شرکت کرکے کراچی کے معروضی حالات کو سمجھنے اور معلومات حاصل کرنے کا اچھا موقع ملتا ہے ، بلکہ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ خلق خدا کیا سوچ رہی ہے اور اس پر کیا گزر رہی ہے، چنانچہ میں وقت سے قبل ہوٹل پہنچ گیا۔ ہال میں ابھی زیادہ لوگ نہیں آئے تھے لیکن جو افراد بھی وہاں موجود تھے وہ کور کمانڈر کراچی کی باتیں سننا چاہتے ہیں، خصوصیت کے ساتھ سانحہ صفورا گوٹھ کے حوالے سے۔ تقریباً سوا تین بجے سمینار کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ بعد میں پی پی پی کی رہنما شیری رحمن کو Key note addressپیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ Key noteکیا تھا اس سے متعلق میں اس کالم کے آخر میں بات کروں گا، جنرل نوید مختار کو سیمینار سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تو وہ بڑے اعتماد کے ساتھ سٹیج پر آئے اور اپنے خطاب میں کراچی کی حقیقی صورتحال پر بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اور انتظامی نا اہلی کی وجہ سے کراچی اس خراب اور فسوسناک نہج پر پہنچ چکا ہے۔ نیز میرٹ پر تعیناتی نہ ہونے کے سبب صوبائی حکومت کا ڈھانچہ (کارکردگی کے لحاظ سے) شدید متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے (تالیوں کی گونج میں) سیاسی و مذہبی جماعتوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی صفوں سے عسکری ونگ کو ختم کردیں، جبکہ کراچی سے متعلق تمام اسٹیک ہولڈرز اس شہر میں ہونے والی دہشت گردی اور دیگر سماجی جرائم کو ختم کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل تعاون کریں۔ کورکمانڈر نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی میں متوازی حکومتوں اور طاقت کے مراکز کا خاتمہ نا گزیر ہوچکا ہے، اس سلسلے میں ہمارے پاس ناکامی کا آپشن نہیں ہے۔ آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، یہی ہمارا ایجنڈا اور حکمت عملی ہے۔ 
انہوں نے زوردے کر یہ بات کہی کہ جو افراد سماج دشمن عناصر کی کسی نہ کسی طرح مدد کررہے ہیں، یا ان کی مذموم کارروائیوں کے لیے آسانیاں پیدا کررہے ہیں، ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ کوئی بھی بچ نہیں سکے گا ہمارے حوصلے بلند ہیں ، ہم نے بہت حد تک جرائم پر قابو پالیا ہے، جو تھوڑی بہت کسر باقی رہ گئی ہے ، اس پر بھی ہماری توجہ ہے اور جلد ان عناصر کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ اپنے بے لاگ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے جنرل نوید مختار نے کہا کہ کراچی میں ہر قسم کا مافیا موجود ہے جس نے اس شہر کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس مافیا کا خاتمہ کراچی میں امن کے قیام کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ تقریباً نصف گھنٹے سے زائد اپنے خطاب میں جنرل نوید مختار نے کراچی میں گذشتہ پندرہ سالوں سے جاری بدامنی اور دہشت گردی کی اصل وجوہ پر روشنی ڈال کر صوبائی حکومت کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے، کہ اسے کس طرح آگے بڑھنا چاہئے تاکہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کو ہر سطح پر کامیاب بنایا جاسکے۔ اس وقت پاکستان کے با شعور افراد بخوبی جانتے ہیں کہ کراچی میں صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کراچی کی انتظامی صورتحال تباہ ہو چکی ہے، جبکہ بیورو کریسی میں اپنی اصلاح کرنے کا جذبہ بھی ناپید ہوچکاہے۔ سندھ حکومت کے وزیراعلیٰ بہت مجبور شخص ہیں کیونکہ صوبائی حکومت کی پشت پر آصف علی زرداری ہیں۔ ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔ ان کے ساتھ بد قسمتی سے کراچی کی بعض سیاسی و مذہبی پارٹیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے باہم مل کر کراچی کو 
ایک بے سمت بلکہ آسیب زدہ شہر میں تبدیل کردیا ہے، جہاں ابھی تک فساد پھیلا نے والے اور قتل وغارت گری کرنے والے مختلف جگہوں پر روپوش ہونے کے علاوہ فعال بھی ہیں اور جن کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ کورکمانڈر صاحب کا یہ خیال درست معلوم ہوتا ہے،بلکہ دوراندیشی پر مبنی ہے کہ کراچی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحہ پر آنا پڑے گا، لیکن کیا ان اسٹیک ہولڈرز کی کراچی میں قیام امن کے متعلق کوئی مثبت سوچ ہے؟ اور کیا سب یکجا ہوکر اس شہر کو مزید تباہی سے بچانے کے سلسلے میں کوئی اہم یا نتیجہ خیز پیش رفت کرسکیں گے؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے، اگر ماضی میں کراچی میں موجود سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے درمیان جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کے علاوہ گڈ گورننس کے حوالے سے کوئی واضح پروگرام یا حکمت عملی موجود ہوتی تو یہ شہر کبھی کا امن کا گہوارہ بن چکا ہوتا، لیکن چونکہ ان تمام عناصر کا اپنا مخصوص ایجنڈا ہے، (جس میں مافیا بھی سرگرم ہے) تو پھر کراچی میں امن کے قیام کے لئے ایک طویل جدوجہد اور قربانی درکار ہوگی، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ عام لوگ مسلسل پیش کررہے ہیں۔ فوج اور دیگر نیم فوجی ادارے کراچی کو دہشت گردی اور سماجی جرائم سے پاک کرنے کے سلسلے میں 
بہت زیادہ فعال ہیں اور حکومت کو اس سلسلے میں مشورہ بھی دیتے رہتے ہیں ، بلکہ ان کی رہنمائی بھی کررہے ہیں، لیکن جب سوچ منفی ہو اور سیاستدانوں کا ایجنڈا ذاتی مفادات پر مبنی ہو تو پھر کراچی میں قیام امن کی جدوجہد کا جلد ثمر بار ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ جنرل نوید مختار نے اپنے خطاب میں دو ٹوک الفاظ میں کراچی کے حالات کا تجزیہ پیش کردیا ہے۔ گیند اب صوبائی حکومت کے کورٹ میں ہے۔ اس کے باوجود صوبائی حکومت اچھی طرز حکمرانی کا عملی ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہتی ہے، تو پھر اسے از خود مستعفی ہوجانا چاہئے۔ 
جنرل نوید مختار کی تقریر سے قبل پی پی پی کی رہنما شیری رحمن کو key note address پیش کرنے کی دعوت دی گئی ، انہوں نے بغیر کسی تحریری نوٹ کے ایک ایسی سیاسی تقریر کردی جس کا کوئی سر پیر نہیں تھا اور جو انتہائی بے ربط اور بے ڈھنگی تھی۔ شرکائے سمینار کو حیرت اس بات کی تھی کہ موصوفہ کو کس وجہ سے اور کیوں کی نوٹ خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی؟ بلکہ وہاں موجود پی پی پی کے بعض وزراء کو موصوفہ کی تقریر سن کر بہت افسوس ہوا تھا، حالانکہ اس موقع پر اس خاتون کو تمام تر سیاق وسباق کے حوالے سے خاصی تیاری کرکے آنا چاہئے تھا، اور کراچی کے حالات سے متعلق اپنی حکومت کی پالیسی کا اظہار بھی کرنا چاہئے تھا، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکیں بلکہ بے کار تقریر کرکے شرکاء کو مایوس کیا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں