سابق وفاقی وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان ان دنوں ذہنی طورپر گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ ہر چند کہ وہ اب تک پی پی پی سے منسلک اورنائب صدر کے عہدے پر براجمان ہیں، لیکن وہ پارٹی کی کارکردگی سے بہت زیادہ دلبرداشتہ ہیں جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ دنوںکراچی پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران بھی کیا۔ انہوںنے برملا کہا کہ پی پی پی مسلم لیگ (ن) کی ''بی‘‘ ٹیم بن چکی ہے، پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کا کوئی وجود نہیں بلکہ حزب اختلاف حکومت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ حقیقی حزب اختلاف نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے مسائل حل نہیں ہو پا رہے اور نہ ہی حزب اختلاف نے حکومت کی توجہ عوامی مسائل پر پُر زور اور پر اثر انداز میں پیش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام آدمی پی پی پی سے بدظن بلکہ نالاں نظر آرہا ہے۔ پنجاب جو کسی زمانے میں پی پی پی کا گڑھ کہلاتا تھا، اس وقت وہاں نہ تو کوئی قیادت ہے اور نہ ہی کارکنوں کی کوئی رہنمائی کرنے والا نظر آتا ہے۔ پی پی پی پنچاب کے عوام کی نگاہوں میں اپنی وقعت کھو چکی ہے اور اس کا وجود سکڑتا جارہاہے۔
فردوس عاشق اعوان نے کراچی پریس کلب میں اپنے جن خیالات کا اظہار کیا وہ تقریباً وہی ہیں جو پی پی پی کے مخلص کارکن کرتے آئے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فردوس صاحبہ نے پی پی پی سے متعلق اپنے خیالات کا اظہاربڑی بیبا کی سے بلاول زرداری کے سامنے بھی کیا جو آج کل پی پی پی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے کارکنوں کے خیالات اور جذبات سے آگاہی حاصل کررہے ہیں۔ فردوس صاحبہ نے بعد میں بلاول زرداری کو اپنا استعفیٰ بھی پیش کیا لیکن چیئرمین نے استعفیٰ قبول نہیں کیا۔ اس کے باوجود محسوس یہی ہوتا ہے کہ فردوس صاحبہ بھی پی پی پی کو چھوڑ نا چاہتی ہیں کیونکہ یہ پارٹی عوامی اُمنگوں پر پوری نہیں اتر رہی ہے۔ علاوہ ازیںسابق دور میں مفاہمت کے نام پر جس طرح قومی خزانے کو لوٹا گیاہے اس کی داستان پاکستان اور پاکستان سے باہر شائع ہونے والے تمام اخبارات میں دیکھی اور پڑھی جاسکتی ہے۔
پی پی پی کے چھوٹے درجے کے ''رہنمائوں‘‘ نے بھی لوٹ مار میں حصہ لیا اور نوکریاں فروخت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔یہ سب ملک کے وسائل کو ذاتی تصرف میں لانے کے لیے بری طرح ٹوٹ پڑے تھے۔ لوٹ کھسوٹ کے یہ تمام مناظر عوام کو نظر آرہے تھے بلکہ وہ اپنے انداز میں اس پر پی پی پی کی مقامی قیادت کے سامنے احتجاج بھی کررہے تھے، لیکن کیونکہ سب کسی نہ کسی عنوان سے بدعنوانیوں میں ملوث تھے اس لیے پارٹی کی سطح پر کسی کا کوئی احتساب نہیںہو سکا۔ چنانچہ پارٹی کے مخلص کارکنوں میں بڑی بددلی پیدا ہوئی اور کئی پارٹی لیڈروں نے پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پی پی پی کے بہت سے نامور رہنما تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ فردوس عاشق اعوان بھی تحریک انصاف میں شامل ہونا چاہتی ہیں، بلکہ بعض ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلے میں ''خفیہ‘‘ بات چیت بھی چل رہی ہے۔ میرے لیے یہ تعجب کی بات نہیں ہوگی۔
دوسری طرف بلاول زرداری بالکل تنہا ہوچکے ہیں۔ ان کے والد محترم جنہوںنے پارٹی کو تباہ کرنے اورلوٹ مار کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی، اس وقت ملک سے غائب ہیں اور پارٹی کی ساری ذمہ داری بلاول زرداری کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دی ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ بلاول زرداری کے قریب وہی عناصر موجود ہیں جو زرداری صاحب کی جی حضوری کیا کرتے تھے اورجو پارٹی سے متعلق اصل حقائق بتانے کی جرأت نہیںکرتے تھے۔ وہ اس وقت بھی پارٹی کے مخلص کارکنوں کو بلاول صاحب سے دور رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر جبکہ پارٹی ان کے والد محترم اور ان کے کرپٹ ساتھیوں کی وجہ سے تباہی سے دوچار ہوچکی ہے، کیا بلاول زرداری اس کو ازسرنو متحرک کرتے ہوئے عوامی پارٹی بناسکیں گے؟ میں نہیں سمجھتا کہ وہ ایسا کرسکیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی ٹھوس سیاسی تجربہ نہیںاور نہ ہی ان کے پاس اب ایسے کارکن موجود ہیں جو ان کے لیے گلی گلی جاکر پارٹی کو مقبول بنانے میںاپنا کردار ادا کرسکیں۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اب عوام روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کے دھوکے میں نہیں آئیں گے کیونکہ گزشتہ سات برسوں میں پی پی پی کی قیادت نے ان کے معاشی و سماجی مسائل کے حل کی طرف کوئی ٹھوس عملی قدم نہیں اٹھایا، اس لیے آئندہ اس سے کیا امید وابستہ کی جاسکتی ہے؟ شہیدوں کے نام پر اب عوام پی پی پی کو ووٹ نہیں دیںگے کیونکہ شہیدوں کا نعرہ لگا کر پی پی پی کی قیادت نے عوام کا زبردست جذباتی استحصال کیا ہے، اس لیے وہ دوبارہ اس نعرے کے دھوکے میں آکر اس پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ بلاول زرداری کرشماتی شخصیت کے مالک نہیں ہیں، بقول ان کے والد کے وہ ابھی میچور نہیں ہوئے۔اس صورت میں وہ کس طرح پارٹی کی بھر پور قیادت کا فریضہ انجام دے سکیںگے؟ رمضان المبارک کے بعد جب وہ پارٹی کو محترک اور فعال بنانے کے لیے ملک دورہ کریں گے تو ان کی پارٹی کی کرپشن کی داستانیں ان کا پیچھا کریںگی اور وہ اس کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکیں گے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وقت بھی خاصی پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے، وہ جان چکے ہیں کہ پارٹی کی ساکھ کسی دوسری سیاسی پارٹی نے خراب نہیں کی بلکہ اس کی تمام تر ذمہ داری ان کے والد محترم اور ان کی کاسہ لیسی کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پی پی پی کے بنیادی منشور سے انحراف کرتے ہوئے عوام کی خدمت کرنے کے بجائے ناجائز دولت حاصل کرنے کی دوڑ میں پارٹی کا بیڑا غرق کردیا۔ پارٹی کی موجودہ خراب اور بے سمت صورت حال کے پیش نظر چھوٹے بڑے کارکن تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں جو اب ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی بن چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پی پی پی کے اندر اس ٹوٹ پھوٹ سے بہت خوش ہے بلکہ مطمئن ہے کہ اب اسے پی پی پی کے تعاون کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ جوڈیشل کمیشن کا 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے سلسلے میں جو بھی فیصلہ آئے گا، اس کے اثرات آئندہ انتخابات پر ضرور پڑیںگے، اس صورت میں اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہی متوقع ہے۔ پی پی پی مسلم لیگ (ن) کی ''بی ٹیم‘‘ بن کر کچھ سیٹیں حاصل کرے گی، اور شایداب وہ اندرون سندھ بھی وہ ''کمال‘‘ نہ دکھا سکے جو اس نے 2013ئکے عام انتخاب میں دکھایا تھا۔ اندرون سندھ کا عام سندھی زندگی کی انتہائی تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہے، انہیںکسی قسم کا تحفظ حاصل نہیںاور نہ ہی ان کی فریاد سننے والا کوئی موجود ہے۔ اس صورت حال میںغریب سندھی پی پی پی کو شہیدوں کے نام پرکیوں ووٹ دے گا جبکہ شہیدوںکا سودا کرکے پارٹی قیادت امیر کبیر بن چکی ہے اور پارٹی عوام میںاپنی قدرونزلت کھو چکی ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔