کچھ خوشخبریاں تو ملیں!

پاکستان کے سیاسی ومعاشی حالات سے متعلق اچھی خبریں خال خال ہی ملتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معاشرے میں جہالت کے علاوہ آبادی کی اکثریت تنگ دستی اور محرومیوں کا شکار ہے، اس لئے معاشرہ تلخیوں سے بھرا پڑا ہے، باہمی محبتوں کا فقدان ہے۔ یہی چند وجوہ ہیں جن کی بنا پر خوشیوں بھری خبریں کم ملتی ہیں ، لیکن جب بھی ملتی ہیں تو ان کے انتہائی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً پاکستانی عوام کے لئے یہ ایک بڑی خبر ہے کہ پاکستان کو شنگھائی تنظیم کا باقاعدہ رکن بنا لیا گیا ہے، جس کے لئے ہماری وزارت خارجہ نے بہت کوششیں کی تھیں، جو بار آور ثابت ہوئی ہیں۔ اس تنظیم میں پاکستان کے دوستوں کی اکثریت شامل ہے، جن میں اہم ترین دوست چین ہے، جس کی دوستی اور تعاون پر پاکستانیوں کو فخر ہے۔ پاکستان اس تنظیم کا رکن بن جانے کے بعد اس خطے میں اقتصادی ترقی، خصوصیت کے ساتھ امن کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا اہم کردار ادا کرسکے گا جبکہ پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ روس کو بھی پاکستان کے شنگھائی تنظیم کا رکن بننے کی خوشی ہوئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں روس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھارت بھی اس تنظیم میں شامل ہے، اس طرح اس فورم پر پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے بہت سی باہمی غلط فہمیوں کو دور کرسکتے ہیں۔
دوسری خوشخبری پاک بھارت تعلقات سے متعلق ہے، جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے درمیان اوفا (روس کے شہر) میں تقریباً ایک گھنٹے تک ملاقات ہوئی ہے جس میں پانچ نکات پر اتفاق ہوگیا ہے۔ ان پانچ نکات کی روشنی میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ہر مسئلہ پر بات چیت کرسکیں گے جس میں کشمیر کا مسئلہ بھی شامل ہوگا اور باہمی مذاکرات کے ذریعہ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جاسکے گی۔
یہ سوچنا کہ اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے مابین دیرینہ مسائل جلد حل ہوجائیں گے،محض ایک خام خیالی ہے کیونکہ بھارت پاکستان کے اندرونی حالات سے واقف ہے بلکہ اس کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے دن رات کام کررہی ہے۔ بلوچستان اور کراچی میں ان کی کارروائیوں کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت پاکستان کے پاس اس کے ٹھوس ، ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں، اس لئے پاکستان کی حکومت یا عوام کو دونوں وزرائے اعظم کے مابین ملاقات سے جلد کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے ، کیونکہ نریندرمودی بنیادی طورپر ایک انتہا پسند شخص ہے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ مزیدبرآں اس ملاقات میں مودی نے ممبئی میںہونے والی دہشت گردی کا بھی ذکر چھیڑا تھا جو اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ باہمی تعلقات کی راہ میں اب بھی بہت سے سنگ گراں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔ بی جے پی کا ایجنڈا پاکستان کو معاشی طورپر مستحکم کرنا نہیں ہے بلکہ اس پر اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔ یہ سوچ پاکستانیوں کوقابل قبول نہیں ہے، اس طرح پاکستان کی خودمختاری شدید متاثر ہوسکتی ہے، نیز پاکستان بنگلہ دیش نہیں ہے جو بھارت کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملاتا رہے۔
شنید ہے کہ میاں نواز شریف نے اس ملاقات میں پاکستان کے موقف پر لچک دکھائی ہے، وہ پرزور بلکہ موثر انداز میں پاکستان کا موقف پیش کرنے سے قاصر رہے۔ ان کے ساتھ سیکرٹری خارجہ کے علاوہ سرتاج عزیز اور فاطمی صاحب بھی شامل تھے، جنہوںنے وزیراعظم کو مناسب ومعقول مشورہ دینے 
کی کوشش نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ مودی کے ساتھ ملاقات میں پاکستان کے اندرحکومت سے متعلق اچھا تاثر قائم ہوگا، لیکن شاید ایسا نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مودی نے جس طرح نواز شریف کا ملاقات سے پہلے ''استقبال‘‘ کیا ہے اس سے یہی تاثر مل رہا تھاکہ بھارتی وزیراعظم میاں نواز شریف کو Degrade کرنا چاہتا ہے۔ اس قسم کا تاثر پاکستانی وفد نے بھی محسوس کیا تھا، بلکہ سابق وزیر داخلہ جناب رحمن ملک نے اس ملاقات سے متعلق اپنا تاثر دیتے ہوئے کہا کہ مودی روسی بادشاہ زار کی طرح نواز شریف کے ساتھ پیش آیا ہے، تاہم ایک بات تمام تحفظات کے ساتھ تسلیم کرنی پڑے گی کہ اس ملاقات سے جنوبی ایشیا کے ان دو ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی آئے گی۔ بھارت میں بی جے پی کی قیادت نے اس ملاقات کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے باہمی تلخی کی فضا کم ہو سکے گی اور جب دونوں ملکوں کے مشیران آئندہ ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے تو تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ نریندرمودی کو وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے جو انہوں نے قبول کرلی ہے۔ وہ یقینا پاکستان آئیں گے۔ ان کی آمد کی وجہ 
سے یہ دونوں ممالک سارک تنظیم کو اس خطے میں زیادہ فعال بنا کر تجارتی ومعاشی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کریں گے اور یہی اس تنظیم کے چارٹر کے تحت اس کا اساسی کردار ہونا چاہئے۔ 
پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات کرانے میں روس اور چین کا بڑا کردار ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرلینی چاہئے کہ روس اور چین دونوں پاکستان کے خیر خواہ ہیں اور ان کی یہ دلی خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم ہوجائے تاکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان وہ تمام مسائل بخوبی حل ہو سکیں جو اس خطے میں کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں۔ روس کی خارجہ پالیسی میں بھی نمایاں تبدیلی آرہی ہے۔ روس پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں چیف آف آرمی اسٹاف جنا ب راحیل شریف نے روس کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا تھا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میںمزید بہتری اور مضبوطی آئی ہے۔ وزیراعظم کے اس دورے سے روس کے ساتھ تعلقات میں ایک نئی جہت پیدا ہوگی جو آئندہ اقتصادی اور دفاعی تعلقات کو مزید خوش آئند بنانے کا سبب بنے گی۔ ہر چند کہ بعض ممالک روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مضبوط ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے لیکن پاکستان کو ان ممالک کی پروا نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنی خارجہ پالیسی میں روس کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دینی چاہئے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں