اس ہفتے سندھ اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ ، کورکمانڈر نوید مختار، ڈی جی رینجرز بلال اکبر، گورنر سندھ عشرت العباد کے علاوہ سندھ کے سینئر سرکاری افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا کہ کراچی کو ہر صورت میں جرائم سے پاک کیا جائے گا، دشمن ملک کے لئے استعمال ہونے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے علاوہ کالعدم جماعتوں اور دہشت گردی کی ترغیب دینے والے مدارس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ اپیکس کمیٹی کے اس فیصلے کا کراچی کے علاوہ پورے سندھ کے عوام نے خیر مقدم کیا۔ سندھ حکومت کی جانب سے کچھ دنوں سے رینجرز کے اختیارات سے متعلق جو خبریں آرہی تھیں، وہ اطمینان بخش نہیں تھیں۔ پیر صاحب پگارا عرف راجہ سائیں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر کراچی سے رینجرز گئی تو شہر میں خون خرابہ شروع ہوجائے گا۔ رینجرز کو کراچی میں امن وامان کی صورت حال ٹھیک کرنے کے لئے باقاعدہ آئینی تقاضوں کے تحت طلب کیا گیا ہے۔ پی پی پی کے علاوہ ایم کیو ایم کو بھی رینجرز کے اختیارات کے بارے میں کچھ شکایتیں ہیں جن کا اخبارات کے ذریعے پتا چلتا رہتا ہے؛ تاہم جب تک رینجرز نے پی پی پی کے تعینات کردہ سندھ حکومت کے کرپٹ عناصر پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا، اس وقت تک رینجرز کی بہت تعریف ہو رہی تھی، یہاں تک کہ پی پی پی نے ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو پر چھاپے کا بھی خیر مقدم کیا جہاں سے کئی مطلوبہ ٹارگٹ کلرز گرفتار ہوئے تھے۔ جب ایم کیو ایم نے احتجاج کیا اورکہا کہ یہ آپریشن بلا امتیاز نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے خلاف کیا جارہا ہے تو اس کے جواب میں قائم علی شاہ نے کہا تھا کہ یہ بلا امتیاز آپریشن ہے، یہ کسی خاص جماعت نہی بلکہ سماج دشمن عناصر کے خلاف کیا جارہا ہے۔ انہوںنے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کسی کو اس سلسلے میں کوئی اعتراض ہے تو وہ اس مسئلے پر عدالتوں سے رجوع کرسکتا ہے۔ لیکن جب رینجرز نے پی پی پی کے بد نام اور کرپٹ عناصر پر ہاتھ ڈالا تو اس کی قیادت ان کرپٹ عناصر کو بچانے کے لئے محترک ہوگئی، بالخصوص پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس صورت حال کے پیش نظر بہت چراغ پا ہوئے۔ انہوں نے عسکری قیادت کو نہایت اشتعال انگیز انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیںگے۔ اس قسم کی باتوں سے جہاں ان کا اپنا امیج خراب ہوا وہاں پورے ملک کے عوام نے ان کے بیان کی شدید مذمت کی۔ زرداری اس بیان کے بعد بیروز ملک چلے گئے ہیں اور دبئی میں بیٹھ کر سندھ حکومت کو ٹکرائو کی صورت حال پیدا کرنے کی ''ہدایات‘‘ دے رہے ہیں۔ بالفاظ دگر وہ سندھ حکومت کے ذریعے رینجرز کو بلیک میل کررہے ہیں تاکہ وہ سندھ حکومت کے کرپٹ عناصر پر ہاتھ نہ ڈالے بلکہ کرپشن کو نظر انداز کرتے ہوئے ''اپنے دائرہ کار‘‘ میںرہ کر کام کرے۔
دراصل اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر تمام سماج دشمن، دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر کے علاوہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے والے مدارس کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ ٹارگٹڈ آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان جاری وساری رہے گا۔ دیہی سندھ اورکراچی کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں سے جب تک سماج دشمن اور ملک دشمن عناصر کا صفایا نہیں کردیا جاتا یہ آپریشن نہیں رکے گا۔ درحقیقت پاکستان میں گزشتہ سات برسوں کے دوران ملک کے وسائل کی جس طرح سیاست دانوں نے
لوٹ مارکی ہے اور قانون کی دھجیاں بکھیری ہیں اس کی ماضی میں مثال ملنی مشکل ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ لوٹ مار کرنے والے نہ تو عوام کے سامنے شرمندہ ہیں اور نہ ہی انہیں خدا کا کوئی خوف ہے۔ یہ صورت حال براہ راست ملک کی سالمیت اور وحدت کو چیلنج کررہی تھی جبکہ عوام کا موجودہ حکومت سے مطالبہ تھا کہ فوری طورپر سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تاکہ قانون کی بالادستی، اس کا احترام اور اس کے اطلاق سے معاشرے کو تحفظ فراہم کیاجائے تاکہ معاشی سرگرمیاں جاری رہ سکیں جو بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے تقریباً رک گئی تھیں۔ اس پس منظر میں گزشتہ برس تمام سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم میاں نواز شریف کی سربراہی میں گورنر ہائوس میں ایک اجلاس میں عہد کیا تھا کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلاامتیازکارروائی ہونی چاہئے، چاہے ان کا کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت سے تعلق ہو۔ اس طرح سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی ، تاجروںاور صنعت کاروں کی جانب سے مینڈیٹ ملنے کے بعد آپریشن شروع ہوا ہے جس کے بہترین نتائج نکل رہے ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر یا تو گرفتار ہو چکے ہیں یا پھر زیرزمین چلے
گئے ہیں۔ کراچی میں سکون نظر آرہا ہے۔ چوری چکاری کے چھوٹے موٹے واقعات ضرور ہو رہے ہیں لیکن مجموعی طورپر کراچی میں معاشی سرگرمیاں بتدریج عروج پا رہی ہیں اور آئندہ اس کے امکانات زیادہ خوش آئند نظر آرہے ہیں۔
جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے وہ رینجرز سے ابھی تک ناراض دکھائی دے رہی ہے۔ جیسے میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے، ان کے کچھ تحفظات ہیں جنہیں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی ڈائریکٹر جنرل رینجرز بلال اکبر سے براہ راست مل کر دورکرسکتی ہے اورکرنا بھی چاہئے ورنہ تلخ بیانات سے معاملات سدھرنے کے بجائے اور زیادہ الجھ سکتے ہیں۔ ٹارگٹڈ آپریشن جرائم پیشہ عناصر اور ان سرکاری افسران کے خلاف کیا جارہا ہے جنہوں نے اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس کے براہ راست اثرات عوام پر پڑے۔ اس وجہ سے ملکی مفادات پر بھی کاری ضرب پڑی اور ادارے کمزور ہوگئے ۔ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ہی رینجرز کو طلب کیا گیا تھا۔ سندھ پولیس بالخصوص کراچی پولیس ہر سطح پر Politicize ہوچکی ہے، اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کراچی میں امن قائم کرے گی، ایک امیدِ موہوم ہے۔ لہٰذا امن وامان کے سلسلے میں کراچی کے عوام کی امیدیں رینجرز سے وابستہ ہوچکی ہیں جو عوامی مینڈیٹ اور آئین کی روشنی میں اپنا کام کر رہے ہیں۔