پاک بھارت کشیدگی اور امریکہ

امریکہ کی مشیر برائے قومی سلامتی سوزن رائس پاکستان کا مختصر دورہ کرنے کے بعد وطن واپس چلی گئیں، پاکستان میں اپنے قیام کے دوران جہاں انہوں نے افواج پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کا اعتراف کیا اور تعریف بھی کی‘ وہیں انہوںنے ایک بار پھر اپنے سابق رفقاء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈومور کی رٹ بھی لگائی اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیوں کو تیز کردینا چاہئے امریکی مشیر برائے قومی سلامتی سوزن رائس کے اس مطالبے پر صرف کف افسوس ملا جاسکتاہے اور یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو زچ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ وہ اس خطے میں امن نہیں دیکھنا چاہتا۔ اگر واقعی سوزن رائس کو جنوبی ایشیا کے معاملات پر تشویش ہوتی تو وہ یقینا بھارت کو متنبہ کرتیں کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر فوراً گولہ باری بند کی جائے ، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی بھارت سے متعلق بات چیت میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ وائٹ ہائوس کے ترجمان کے مطابق امریکی مشیر برائے قومی سلامتی کے دورے کا مقصد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے متعلق بات چیت کرنا نہیں تھا‘ بلکہ وہ میاں نواز شریف کو آئندہ اکتوبر میں امریکی صدر سے ملاقات کرنے کی دعوت دینے آئی تھیں۔ مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ انہوںنے صرف افغانستان کی اندرونی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور مطالبہ کیا کہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں تیز کردینی چاہئیں؛ تاہم انہیں بتایا گیا کہ ضرب عضب آپریشن ہر اس گروہ کے خلاف جاری ہے جو دہشت گردی میںملوث ہے۔ ان میں حقانی نیٹ ورک بھی شامل ہے۔ فوجی کارروائیوں کے ذریعہ سینکڑوں دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا جاچکا ہے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ افغانستان میں امن دونوں ملکوں کی ذمہ داری ہے ، پاکستان نے افغانستان میں امن کی خاطر طالبان سے گذشتہ ماہ مری میں مذاکرات کا اہتمام کیا تھا جس میں امریکی نمائندے بھی شامل تھے۔ طالبان کے ساتھ افغانستان اور پاکستان کا دوسرا دور شروع ہونے والا تھا کہ ملا عمر کے انتقال کی خبر نے ان مذاکرات کو کھٹائی میں ڈال دیا تاہم پاکستان اب بھی ان سے مذاکرات کے لئے تیار ہے، افغانستان میں جو حملے کئے جارہے ہیں ان کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور نہ ہی پاکستان ایسے حملوں کی تائید یا حمایت کرتا ہے، بلکہ پر زور الفاظ میں مذمت بھی کرتاہے۔ 
یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ امریکی مشیر برائے قومی سلامتی نے افغانستان سے متعلق اپنی تشویش کااظہار کیا اور اس سے متعلق عسکری اور سیاسی قیادت سے بات چیت بھی کی، لیکن پاک بھارت تعلقات پر بات چیت کرنا گوارا نہیں کیا بلکہ وائٹ ہائوس نے اسی روز باقاعدہ ایک اعلامیہ شائع کیا جس میں بڑی وضاحت سے کہا گیا ہے کہ سوزن رائس کے دورہ کا پاک بھارت تعلقات سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ وزیراعظم پاکستان کو اکتوبر میں امریکہ کا دورہ کرنے کی دعوت دینے کے لئے آئی تھیں۔ حالانکہ اس وقت پاک بھارت تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی پائی جارہی ہے۔ بھارت مسلسل کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر گولہ باری کررہا ہے، جس میں پاکستان کے شہری زخمی اور شہید ہورہے ہیں! اس لئے حالات کا تقاضا تھا کہ امریکی مشیر کو سب سے پہلے اس مسئلہ پر بات چیت کرنی چاہئے تھی، اور جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے ملکوں کے مابین کشیدگی کو دور کرنے میںاپناموثر کردار ادا کرنا چاہئے تھا ، لیکن اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ امریکہ صرف افغانستان سے دلچسپی رکھتا ہے، اور وہاں امن کے قیام کے لئے پاکستان پر زور دے رہا ہے۔ حالانکہ افغانستان میں امن کے قیام کی ذمہ داری افغان حکومت پر ہے اور امریکہ پر 
بھی جس کی فوج کا کچھ حصہ ابھی تک وہاں موجود ہے جس کے خلاف افغان طالبان جنگ کررہے ہیں۔ دوسری طرف افغان طالبان کے ایک نمائندے نے امریکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''جب تک غیر ملکی فوجیں افغانستان میں موجود رہیں گی‘‘ ہم جنگ کرتے رہیں گے۔ لاکھو ں افغان طالبان نے اپنے وطن کی آزادی کے لئے جان ومال کی قربانیاں دی ہیں، یہ قربانیاں رائگا ں نہیں جائیں گی۔ کیا امریکہ بہادر کو اس بات کا احساس وادراک ہے کہ افغان طالبان کی جنگ امریکی قابض فوج کے خلاف ہے جبکہ افغان حکومت امریکہ کی حمایت ، تعاون اور مالی امداد سے قائم ہے۔ اگر امریکہ اپنی باقی فوج واپس بلا لیتا ہے اور اپنے ہوائی اڈے خالی کردیتا ہے تو اشرف غنی کی حکومت چند روز بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ افغان نیشنل آرمی میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ افغان طالبان کا مقابلہ کرسکے۔ اس کی تازہ مثال ہلمند صوبہ سے دی جاسکتی ہے، جہاں امریکہ کی فوجی امداد اور لڑائی کے ذریعے اس صوبے کو واپس افغان حکومت کی تحویل میں دیا گیا ہے۔ افغانستان میں جنگ کو ختم کرنے میں پاکستان کا کردار واضح ہے جس کے لئے پاکستان نے ماضی میں بھی اور اب بھی کوششیں کی ہیں۔ ان کے مثبت نتائج نکلنے والے تھے کہ ملا عمر کے اچانک انتقال کی خبر سے یہ مذاکرات ملتوی ہوگئے۔ اب بھی پاکستان افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کرانے کے لئے تیار ہے، لیکن امریکہ پاکستان کی اس نیک نیتی کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایسے مطالبات کررہا ہے، جن کا پاکستان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ 
دراصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مخلص نہیں ہے، دوسری طرف پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔ اس کی دیرینہ خواہش ہے کہ امریکہ افغانستان سمیت پاک بھارت تعلقات کوبہتربنانے میں مد د کرے اور اس خطے میںجنگ کی فضا کو ٹھنڈا کرنے اور معمول پر لانے میںسپر پاور کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرے، لیکن امریکہ جنوبی ایشیا میں بھارت کی طرف مائل ہوتے ہوئے ان دونوں ملکوں کے درمیان ''محدود‘‘ جنگ کرانا چاہتا ہے، تاکہ بعد میں وہ دونوں ملکوں کی بربادی کی صورت میں اپنا اسلحہ فروخت کرسکے اور اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں کام کرتی رہیں۔ سوزن رائس کے حالیہ دورہ پاکستان سے امریکہ کے اس حساس خطے میں مقاصد اور رویئے کا احساس ہر کسی کو ہوگیا ہے، اس لئے پاکستان نئے دوستوں (مثلاً روس) کے ساتھ تعلقات میں مضبوطی پیدا کرے اور فعال اور متحرک سفارت کاری کے ذریعے امریکہ بہادر کو قائل کرنے کی کوشش کرے کہ اس کا بہترین مفاد پاکستان کے ساتھ اچھے مراسم میں مضمر ہے، نہ کہ جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے میں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں