پاکستان جاگ رہاہے

یوں محسوس ہورہا ہے کہ بھارت‘ انتہا پسند وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میںپاکستان پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہاہے۔ اس کے مذموم عزائم کا اندازہ لائن آف کنٹرول اور انٹرنیشنل ورکنگ بائونڈری پر بغیر کسی اشتعال کے مسلسل گولہ باری سے لگایا جاسکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ اس کے ساتھ قیام امن کے امکانات بھی معدوم ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو بھی اس صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ انہوںنے اپنے ایک بیان میںکہا ہے کہ وہ بذات خود اس صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں، اور دونوں ملکوں کو مذاکرات کرنے پر زور دیا ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری سطح پر بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز کاروائیوں سے آگاہ کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ان کارروائیوں کو روکا جائے ورنہ خطے میں بھیانک جنگ کا آغاز ہوسکتاہے۔ عالمی برادری کو احساس ہوچکاہے کہ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش نہ کی گئی تو ممکنہ جنگ کی صورت میں تباہی وبربادی خطے کا مقدر بن جائے گی۔ دراصل نریندرمودی یہی چاہتاہے لیکن اُسے اس کا شاید ادراک نہیں کہ اگر اس دفعہ بھارت نے 1965ء کی طرح جنگ شروع کرنے میں پہل کی تو یہ پھر رک نہیں سکے گی بلکہ ہوسکتا ہے کہ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوجائے۔ پاکستان بھارتی جارحیت کے جواب میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے صحیح کہا ہے کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ ممکنہ جارحیت کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے گی کہ جارح کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ 
1965ء کی جنگ میں‘ جس کا آغاز بھارت نے کیا تھا اُسے ہر محاذ پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ یہاں تک کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ پاکستان کی فوج نے جس میں فضائیہ اور بحریہ بھی شامل تھیں‘ جس جوانمردی سے بھارتی یلغار کا مقابلہ کیا اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ بھارت ہر لحاظ سے پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک ہے، اس کی فوج بھی پاکستان سے5 گنا زیادہ ہے، لیکن اس عددی برتری کے باوجود بھارت 65ء کی جنگ میں وہ نتائج حاصل نہ کر سکا‘ جس کا اُسے بڑا زعم تھا‘ مثلاً بھارت کے ایک جرنیل نے بڑے متکبرانہ انداز میں کہا تھا کہ'' آج شام کی چائے لاہور جم خانے میں پئیں گے‘‘ لیکن نہ تو وہ شام آسکی اور نہ ہی بھارتی فوج لاہور یا پھر پاکستان کے کسی خاص حصے میں داخل ہوسکی۔ پاکستانی فوج کے جوانوں نے جذبہ ایمانی کی قوت اور حرارت سے بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے نئی تاریخ رقم کی اور بھارت کو پیغام دیا کہ آئندہ اگر اس نے روایتی عیاری ، مکاری اورچالاکی سے پاکستان پر حملہ کیا تو پھر جنگ صرف 17دن تک محدود نہیں بلکہ بہت دور تک چلے گی۔ اس وقت بھی پاکستان کو بھارت کی طرف سے 1965ء کی جنگ کی سی صورتحال کا سامنا ہے۔ انتہا پسند مودی پاکستان کے خلاف محدود جنگ کرنے کا عندیہ دے رہا ہے، بلکہ پاکستان کی فوج اور عوام کو مشتعل کررہا ہے، لیکن جیسا کہ پاکستان کے دفاعی ماہرین کا تجزیہ درست معلوم ہوتا ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ مسلط کی تو یہ محدود نہیں رہے گی بلکہ پھیل کر اس کے شعلے پورے بر صغیر کو لپیٹ میں لے لیں گے۔ نیز اس صورت میں امریکہ یا پھر اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کی کوششیں بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکیں گی۔ 
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ بھارت کا پردھان منتری نریندرمودی پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا نہیں چاہتا بلکہ وہ اندرا گاندھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان پر کسی نہ کسی بہانے جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اس کی فوج کے سربراہ کا بھی یہی منصوبہ ہے۔ بھارت نے حال ہی میں 100بلین ڈالر کی کثیر رقم خرچ 
کرکے جو دنیا بھر سے مہلک ہتھیار خریدے ہیں ان کا 80فیصد استعمال بھی پاکستان کے خلاف ہوگا؛ چنانچہ پاکستان کی فوج‘ سیاسی قیادت اور عوام بھارت کی اس جارحانہ پالیسی کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں، اور وہ بھارت کی جانب سے ممکنہ جارحیت کے خلاف ہر طرح سے تیار ہیں۔ اس وقت گیند بھارت کی کورٹ میں ہے، اگر وہ مذاکرات کے ذریعہ ان دونوں ملکوں کے درمیان امن چاہتا ہے تو پاکستان کو ہمہ وقت تیار پائے گا، دوسری طرف وہ جنگ کرنا چاہتا ہے اور 1965ء کی جنگ کی طرح پاکستان پر اچانک حملہ کرنے کا خواہش مند ہے تو اس کے لئے بھی پاکستان تیار ہے۔ اس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ 1965ء کی جنگ کے متعلق بعض مغربی نامہ نگاروں نے یہ لکھا ہے کہ اس جنگ میں نہ کسی کی ہار ہوئی نہ جیت، بلکہ مقابلہ برابر کا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے خود فائر بندی کا مطالبہ کیا تھا، نہ کہ پاکستان نے۔ اس وقت بھارت کے آرمی چیف نے سیاسی قیادت کو یہ پیغام دیا تھا کہ
India's Chief of Army Staff urged negotiations on the ground that they were running out ammunition and their number of tanks had become seriously depleted.
1965ء کی جنگ میں بھارت اور پاکستان نے چونڈہ کے مقام پر سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ لڑی تھی۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ تھی۔ ٹینکوں کی اس جنگ میں غیر ملکی مبصرین کے مطابق پاکستان کے ٹینک تیزی سے بھارتی ٹینکوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ تب پاکستان کے پاس ایم 4 شرمن ٹینک M24 Chaffeeٹینک اور M36جیک سن ٹینک تھے، یہ تمام امریکہ سے خریدے گئے تھے۔ ا س جنگ میں بھارت کے کم از کم 120ٹینک تباہ ہوئے۔ پاک فوج کے افسران اور جوانوں نے بھارتی ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر بھارتی فوج کی یلغار کو روکا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ ہفت روزہ نیوز ویک نے لکھا کہ چونڈا میں پاکستان نے بھارتی فوج اور ٹینکوں کو جو نقصان پہنچایا اس سے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ پاکستان بھارت کی ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ 1965ء کی جنگ نے پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ سبق سکھایا ہے کہ امریکہ کی حمایت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے، جبکہ چین نے پاکستان کی اس جنگ میں غیر معمولی مدد کی۔ 1959ء میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پاگیا تھا کہ پاکستان پر بیرونی جارحیت کے خلاف امریکہ پاکستان کا ساتھ دے گا۔ لیکن امریکہ نے پاکستان پر1965ء کی جنگ کے دوران ہتھیاروں کی فروخت یا سپلائی پر پابندی لگا کر پاکستان کی پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کی تھی اوراپنے معاہدے پر قائم نہیں رہا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں