خوفناک کھیل: ایک وضاحت

ایک صحافی کے مختلف ذرائع ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ درست ثابت ہوتے ہیں اور کبھی کبھار غلط بھی نکلتے ہیں۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ گزشتہ دنوں میں نے اپنے ایک کالم میں متحدہ عرب امارات سے متعلق جو کچھ لکھا تھا اس حوالے سے میری معلومات مستند نہ تھیں؛ تاہم میرا مقصد ہرگز ہرگز کسی کو نشانہ بنانا تھا نہ ہی دوست ملک پر منفی تنقید تھا بلکہ اسے عالمی سازشوں سے خبردار کرنا تھا۔
میں اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات نہایت ہی خوشگوار اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔ پاکستان کے سرمایہ داروں نے وہاں پر رئیل سٹیٹ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جو اس بات کی روشن دلیل ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتی ہے اور یہ اہمیت ماضی کے انتہائی خوشگوار رشتوں سے مربوط ہے۔ متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سرمایہ کار اور ہزاروں کی تعداد میں کام کرنے والے کارکن یو اے ای کی حکومت کے نہ صرف شکرگزار ہیں بلکہ وہ اپنے انداز سے ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کر رہے ہیں۔ یو اے ای کی لبرل اکنامک پالیسی کی وجہ سے پاکستان اور یو اے ای کے درمیان بڑی تیزی سے تجارت فروغ پا رہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آئندہ سالوں میں ان دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم مزید بڑھے گا۔ جہاں تک میں نے متحدہ عرب امارات میں اسرائیل اور را کی سرگرمیوں کے متعلق لکھا ہے تو تحقیق کرنے کے بعد کھلے دل سے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ان معلومات میں کوئی صداقت نہیں تھی لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتاتا چلوں کہ کسی بھی موضوع پر لکھاری کا لکھنے کا مقصد‘ کسی ملک کو ٹارگٹ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق آگاہی سے ہوتا ہے جو کسی بھی صورت میں ان کے کام آ سکتی ہے۔ میں ایک کالم نگار کی حیثیت سے یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یو اے ای کی پاکستان دوست حکومت اور پاکستانی حکمران غیرملکی ایجنسیوں کو یہ موقع فراہم کریں گے کہ وہ پاکستان کے خلاف ایسی کارروائی کریں جس سے پاکستان کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ میں کئی بار متحدہ عرب امارات گیا ہوں۔ ایک ٹی وی چینل کے لئے سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کا انٹرویو بھی میں نے وہیں سے کیا تھا اور انہوں نے بھی مجھے میرے سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ ہمیں فخر ہے کہ متحدہ عرب امارات نہ صرف ہمارا پڑوسی ملک ہے بلکہ مسلم اُمہ کا عظیم سرمایہ بھی ہے۔ مجھے یو اے ای کی ایک انتہائی اہم شخصیت نے بتایا کہ پاکستان کے ساتھ جو ہمارے روابط ہیں‘ خصوصاً جن کی بنیاد شیخ زاید النہیان نے رکھی تھی‘ وہ کبھی متاثر نہیں ہو سکتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے ایک مشہور بینکر آغا حسن عابدی نے یو اے ای کے حکمران شیخ زید کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ ایک ایسا بینک قائم کریں جو مسلمان ممالک کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بن سکے۔ چنانچہ وہ بینک معرض وجود میں آیا جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر مسلم ممالک کو غیرمعمولی معاشی فوائدحاصل ہوئے۔ پاکستان کے سابق صدر غلام اسحق خان نے اسلام آباد میں میرے ساتھ مختلف ملاقاتوں میں یو اے ای کے حکمرانوں کی بہت تعریف کی اور بتایا کہ جب بھی پاکستان پر معاشی دبائو بڑھتا ہے تو سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور ہماری معاشی الجھنیں دُور کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ میں نے شارجہ کے امیر القاسمی کا ایک طویل انٹرویو کیا تھا جس میں ‘ میںنے یو اے ای کی حکومت اور پاکستان کے درمیان دفاعی اور معاشی معاملات سے متعلق ان کے خیالات کی تشہیر کی تھی جسے القاسمی صاحب نے بہت پسند کیا تھا۔ ان کے ساتھ انٹرویو کی میری تصویر ان کے البم میں آج بھی موجود ہے۔ 
میرے کالم کا دوسرا مقصد یہ بھی تھا کہ دوست ملک کو معلوم ہو جائے کہ بعض غیرملکی ایجنسیاں مل کر پاکستان کے اندر مختلف جگہوں میں انارکی پھیلا رہی ہیں جس سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ جن ممالک کا میں نے ذکر کیا‘ میں ان کی ریشہ دوانیوںسے یو اے ای کو بچانے کا متمنی تھا؛ تاہم خدا کا شکر ہے کہ متحدہ عرب امارات میں سکیورٹی کی صورتحال بہت مضبوط ہے اور وہاں کسی غیرملکی ایجنسی یا تنظیم کو ابھی تک پر مارنے کی بھی ہمت نہیں ہو سکی۔ میرے لئے یہ امید رکھنا بجا ہے کہ متحدہ عرب امارات سمیت تمام مسلم ممالک پاکستان کی ان پریشانیوں اور الجھنوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہ ملک بے پناہ قربانیوں کے بعد وجود میں آیا ہے جبکہ ہمارے دشمنوں نے 1971ء میں اسے دولخت بھی کیا تھا۔ پاکستان کے حساس لکھنے والے کالم نویس اور دانشور پاکستان کو توڑنے والوں کو کس طرح برداشت کر سکتے ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب اس قسم کی معلومات لکھاریوں کو معلوم ہوتی ہیں تو وہ دیگر برادر اسلامی ممالک کے حوالے سے اس کا اظہار صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہاں کے حکمرانوں کو اصل صورتحال سے آگاہی حاصل ہو لیکن یہ بات میں پھر تسلیم کرتا ہوں کہ کبھی کبھار معلومات ناقص ہو سکتی ہیں لیکن نیت اور اخلاص میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا۔ میرے لکھنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ یو اے ای پاکستان دشمن قوتوں کی کسی طرح حوصلہ افزائی کر رہا ہے بلکہ اس کا مقصد میری اپنی محدود معلومات کے مطابق آگاہی دینا تھا جو آئندہ کسی بھی صورت میں ان دونوں ملکوں کے مفاد میں بہتر ثابت ہوں۔جہاں تک داعش کے فلسفے کے پھیلنے کا تعلق ہے‘ تو متحدہ عرب امارات میں اس حوالے سے نہ تو کسی ملک کے لوگ تجارت یا سیاحت کی آڑ میں کوئی کارروائی کر رہے ہیں نہ کوئی ایجنڈا پھیلا رہے ہیں۔ تمام اسلامی دنیا کی طرح متحدہ عرب امارات بھی داعش سے بہت زیادہ خبردار ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے تیار بھی۔متحدہ عرب امارات پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ یہاں کسی انتشار کو پھیلنے دیا جا سکے۔ داعش کی سرگرمیوں سے متعلق بھارتی میڈیا مسلسل یہ لکھ رہا ہے کہ داعش کے لوگ بھارت میں بھی داخل ہو گئے ہیں۔ چنانچہ جن بھارتیوں کا میں نے ذکر کیا تھا وہ بھارت کے اخبار سے ہی میں نے لیا تھا اور بھارتی فوج کے ریٹائرڈ کرنل کی بیٹی اس وقت بھی ایک نفسیاتی ہسپتال میں داخل ہے جہاں اس کے ذہن سے داعش کے فلسفے کے اثرات کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بھارت کے بعض کالم نگار اپنے کالموں میں مسلم ممالک کو باقاعدہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنے نوجوانوں پہ نظر رکھیں جو داعش کے فلسفے سے متاثر ہو کر اپنے اپنے ملکوں میںپیچیدہ سیاسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے حکمران‘ میڈیا اور عوام متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس وضاحت کے بعد مجھے قوی اُمید ہے کہ میری تحریر کا اثر کسی دوسرے انداز میں نہیں لیا جائے گا بلکہ اس خلوص کو دیکھا جائے گا جو اس میں مضمر ہے۔
نوٹ:آغا مسعود حسین نے اپنے جس مضمون کی وضاحت کی ہے‘ وہ برادر مسلم ریاست کے حوالے سے تھا جو ہمارے لئے بلکہ تمام پاکستانیوں کے لئے قابل احترام ہے۔ یو اے ای ہمیشہ سے پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے اور کوئی پاکستانی دوستی اور بھائی چارے کے اس رشتے کو ٹھیس پہنچانے کے بارے میں سوچ نہیں سکتا۔ مضمون کی سہواً اشاعت پر مضمون نگار کی طرح ادارہ کو بھی افسوس ہے۔ (ادارہ)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں