ہر چند کہ میاں نواز شریف نے انتہائی خلوص دل سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میںبھارت کے ساتھ پائدار امن کے قیام کے لئے جو چارنکاتی فارمولا پیش کیا ہے وہ معروضی حالات کے پس منظر میں انتہائی اہم اور قابل توجہ ہے،اگر بھارتی قیادت اس پر خلوص دل سے عمل کرے تو مذاکرات کا رکا سلسلہ آگے بڑھ سکتا ہے‘ جس سے دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تبدیلیاں آسکتی ہیں۔افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ وزیراعظم نوازشریف کی تقریر ختم ہوئے چند لمحے ہی گزرے ہوں گے‘کہ بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کا بیان آگیا کہ بھارت پاکستانی فارمولا مسترد کرتا ہے۔ مادام سوراج نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ پاکستان کے ساتھ صرف دہشت گردی سے متعلق بات چیت ہوسکتی ہے۔سشما سوراج کی پرورش انتہا پسند ہندو گھرانے کے علاوہ بی جے پی کے نظریاتی ونگ کے تحت ہوئی ہے اس لئے انہوںنے بی جے پی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی امن تجاویز کو مسترد کرنے میں مطلق تاخیر نہ کی۔ یوں ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات سے متعلق تمام امیدیں نقش برآب ثابت ہوئیں۔ دراصل پاکستان کے بارے میں اس بھارتی رویے کوتقویت دینے میں امریکہ بہادر کا بھی ہاتھ ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے ماضی میں مودی کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دیتے ہوئے اسے امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کردیا تھا، لیکن جیسے ہی وہ بھارت کے سرمایہ دار اور انتہا پسند جنونی ہندوئوں کے ووٹ کے ذریعہ اقتدار میں آیا تو امریکہ نے اُسے فورا گلے لگا لیا۔ اس کی وہ تمام قابل مذمت حرکات معاف کرتے ہوئے اُسے اپنا اسٹریٹیجک پارٹنر بھی بنا لیا‘ پاکستان کے عوام کو امریکہ کے اس طرز عمل پر افسوس ہے، لیکن سب سے زیادہ افسوس اس کا ہے کہ وہ بھارت کی پاکستان کے اندر غیر اعلانیہ مداخلت روکنے کے لئے بھی اپنا اثرورسوخ استعمال نہیں کررہا، اور نہ ہی وہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام معاملات پر بات چیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے؛ چنانچہ بھارت امریکہ کی شہ اور پشت پناہی کی بنا پر ایک ایسا رویہ اختیار کررہا ہے کہ جس کے باعث جنوبی ایشیا میں مسلسل کشیدگی بر قرار رہے گی‘ جو ان دونوں ملکوں کی اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے؛ تاہم اس موقع پر یہ لکھنا بہت ضروری ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ اپنی ملاقات میں جب نریندرمودی نے کشمیر میں پاکستان کی جانب سے ''مداخلت‘‘ کا ذکر کیا تو امریکی صدر نے کہا اس مسئلہ پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنا اشد ضروری ہے ،یہ سن کر مودی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام سے متعلق میاں نواز شریف کے خیالات کے علاوہ پاکستان کی افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے لندن میں ایک کانفرنس کے دوران واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، لیکن برابری کی بنیاد پر اور اگر مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے تو کشمیر کا مسئلہ زیربحث ہوگا، جو ان دونوں ملکوں کے درمیان تمام تنازعات کی بنیاد ہے۔ کشمیر کا مسئلہ تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے‘ یہ تاریخی حقیقت ہے جسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو اس سے پوری دنیا متاثر ہورہی ہے۔ پاکستان نے خطے کو اس عفریت سے نجات دلانے کے لئے جس منظم کاروائی کا آغاز کیا ہے ‘ ساری دنیا اس کی معترف ہے اور پاکستان کی مدد بھی کرنا چاہتی ہے۔ لیکن بھارت کی پاکستان دشمنی کی انتہا ہوگئی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ‘ جس کے خاتمے کا برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو فائدہ ہوگا‘ پاکستان کی مدد کرنے کے بجائے انتہاپسندوں کی مالی اور اسلحہ کے ذریعہ مدد بھی کررہا ہے اور حوصلہ افزائی بھی۔
پاکستان کے عوام بھارتی طرز عمل کا مشاہدہ بلوچستان ، کراچی اور فاٹا میں کررہے ہیں، نیز بھارت افغانستان کی موجودہ یونٹی حکومت کو بھی پاکستان کے خلاف اکسا کر پاکستان کی مغربی سرحدوں کو گرم رکھنا چاہتا ہے، تاکہ یہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملہ کرتے رہیں، یہی وجہ ہے کہ راحیل شریف نے برطانیہ کے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ دہشت گردوں کی مالی امداد کو موثر طورپر روکنے کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کریں، اور نہ ہی اپنے ملک کو دہشت گردانہ کارروائیوں کیلئے استعمال نہ ہونے دیں۔ راحیل شریف کے ان خیالات کا برطانوی حکومت نے خیرمقدم کیا اور یقین دلایا کہ اگر واقعی ان کے ملک سے دہشت گردوںکی فنڈنگ ہورہی ہے تو وہ اُسے روکنے کی پوری کوشش کریں گے؛ چنانچہ بھارت کے پاکستان سے متعلق رویے کو دیکھتے ہوئے ملیحہ لودھی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ بھارت مذاکرات کے لئے رضا مند نہیں ہے۔ باالفاظ دیگر بھارت جنوبی ایشیا میں امن کا قیام نہیں چاہتا ہے، بلکہ سٹیٹس کو رکھنا چاہتا ہے، جو کسی بھی وقت حالات کے جبرکی صورت میں ان دونوں ملکوں کے درمیان مسلح تصادم کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم مودی نے امریکہ میں اپنے قیام کے دوران بھارتی باشندوں سے خطاب
کے دوران پاکستان کو بھارت کے ساتھ کشیدگی کا ذمہ دار قرار دیا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ نیو یارک میں پاکستانیوں کے علاوہ کشمیریوں نے نریندرمودی کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا، اور اسے مسلمانوں کا قاتل قرار دیا ، ایک قرار داد کے ذریعہ امریکیوں کو بتایا گیا کہ کس طرح بھارت نے اپنی سات لاکھ فوج کے ذریعہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے، ان پر آئے دن بھیانک تشدد کرکے انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ استصواب رائے سے دستبرار ہو کر بھارت میں ضم ہوجائیں۔ کشمیریوں کو کسی طرح بھی بھارت کی یہ تجویز منظور نہیں ہے اور نہ ہی بھارتی تسلط کے خلاف ان کی جدوجہد کے رکنے کا کوئی امکان ہے۔ بھارت کا پاکستان کے خلاف ایک منصوبہ یہ بھی ہے کہ کسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ اس نے اس مذموم مقصد کے لیے 60کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی ہے جو دہشت گردوں اور پاکستان دشمن قوتوں کو دی جائیگی تاکہ وہ اپنی ناپاک کارروائیوں کے ذریعہ اس عظیم منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کریں۔ پاکستان کے علاوہ چینی حکومت کو بھی بھارت کے اس ناپاک اور دشمنی پر مبنی عزائم کا ادراک و احساس ہے؛ تاہم ان دونوں ملکوں نے بھارت کی اس سازش کو ناکام بنانے کا تہیہ کرلیا ہے، جبکہ پوری دنیا کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ یہ منصوبہ ضرور پایہ تکمیل تک پہنچے گا، اس منصوبے سے صرف پاکستان ہی کو فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ پورا خطہ معاشی اور ثقافتی طورپر مستفید ہوگا۔