بھارت کی جانب سے دھمکی آمیز بیانات کا تسلسل جاری ہے۔ چند ماہ قبل بھارتی ایئر چیف نے دھمکی دی تھی کہ آزاد کشمیر میں برما کی طرز کی کارروائی کر سکتے ہیں۔ اگر (بھارتی) حکومت ہری جھنڈی دکھائے تو ایک منٹ ضائع کئے بغیر ایسی کارروائی کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے بھارتی فوج کے سربراہ دلیر سنگھ نے بھی اسی نوعیت کا بیان دیا تھا، جس کا آئی ایس پی آر نے انتہائی معقول اورمناسب جواب دیا۔ دوسری طرف وزیردفاع منوہرپاریکرنے میاں نواز شریف کے سیاچن سے متعلق تقریر کا حوالہ دیئے بغیر کہا ہے کہ سیاچن سے متعلق مشورہ پاکستان اپنے پاس رکھے ،ہمیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے ہمالیہ کے قرب وجوار میں پہاڑوں پر مہم جوئی کے بہانے سیاچن پر قبضہ کرلیا تھا۔پاکستان کو اس کی بڑی تاخیر سے خبر ہوئی، تب تک بھارت نے یہاں پر بنکرز بنانے کا آغاز کردیا تھا۔ساری دنیاجانتی ہے کہ بھارت نے سیاچن پر ناجائز اور غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے اور یہ بھی،کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس مسئلہ پر بھی سخت کشیدگی ہے۔ بیس ہزار فٹ کی بلندی پرجہاں برف بہت کم پگھلتی ہے۔رگوں میں خون جما دینے والی سردی میں دونوں فوجیں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ بھارت کو بلندی پر مورچہ بند ہونے کی وجہ سے پاکستان پر عسکری برتری حاصل ہے لیکن اس کے باوجود پاک فوج نسبتاً کم بلندی پر بیٹھ کر بھی بے مثال بہادری اور شجاعت کے ساتھ سرزمین وطن کے ایک ایک انچ کی حفاظت کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ سیاچن کا مسئلہ اتنا گمبھیرنہیںجتنا کشمیر کا ہے۔ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعہ بہ آسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ راجیو گاندھی اور بے نظیر بھٹو کے درمیان 1989ء میں مذاکرات میں یہ مسئلہ تقریباً حل ہو گیا تھا‘ دونوں وزرائے اعظم اس ضمن میں ایک سمجھوتے پر دستخط کرنے والے ہی تھے کہ بھارتی فوج کے سربراہ شرما نے یہ شوشا چھوڑ کر اس تاریخی فیصلے کو سبو تاژ کر دیا کہ اس طرح پاکستان کو سیاچن پر ہر لحاظ سے برتری حاصل ہو جائے گی ۔ راجیو گاندھی اپنی فوج کے سربراہ کی باتوں میں آ گئے‘ یوں یہ تاریخی پیش رفت ، بھارتی فوج کی متعصبانہ اور ناعاقبت اندیشانہ روش کے باعث بے نتیجہ رہ گئی۔ پاکستان کے بعض سیاست دانوں کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ بھارت کی جمہوریت میں دفاعی امور سے متعلق تمام فیصلے فوج کی منظوری اور مشورے سے کئے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں بھارت کی سیاسی قیادت بھارتی فوج کے تجزیوں کی روشنی میں ہی کوئی فیصلہ کرتی ہے‘ پاکستان میں اگر فوج ملک و قوم کے بہترین مفاد میں کوئی تجویز پیش کرے یا مشورہ دے تو ہمارے سیاستدان فوج کو جمہوریت میں مداخلت کے طعنے دینے لگتے ہیں۔ یہ روش وطن دوستی نہیں بلکہ ایسا کرنا بھارتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے مترادف ہے‘ جو وطن عزیز کے اس انتہائی قابل قدر اورباوقار ادارے کو متنازع بنا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ کاش ! پاکستان کے''جمہوریت پسند‘‘ سیاست دان بھارت کی اس خطرناک چال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
سیاچن کے مسئلہ کو دوسری مرتبہ حل کرنے کا موقع وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دور میں آیا‘ انہوں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بڑی صراحت سے یہ کہا تھا کہ وہ سیاچن کو بین الاقوامی امن پارک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ جہاں دنیا بھر کے سیاحوں کو اس بلند ترین چوٹی پر سیاحت کے ذریعہ قدرت کا نظارہ کرنے کا موقع ملے گا۔ من موہن سنگھ کی اس تجویز کو بھارت کی کابینہ منظور کرنے
والی تھی کہ بھارتی فوج کے سربراہ نے اس کی شدید مخالفت کی۔ یوں یہ تجویز بھی بھارتی فوج کی مداخلت پر سرد خانے کی نذر ہو گئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سیاچن پر دونوں طرف کے دو ہزار سے زائد فوجی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جب کہ ان کی رسد پر یومیہ کروڑوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ انہی حقائق کے پیش نظر وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن بھارتی فوج اس کے لیے تیار نہیں ہے‘ اور بھارت کی سیاسی قیادت کو مجبور کر رہی ہے کہ اس مسئلہ کو حل نہ کیا جائے۔ شملہ معاہدے کے تحت دوطرفہ بنیادوں پر یہ مسئلہ بہ آسانی حل ہو سکتا ہے‘ بلکہ بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی نے شملہ معاہدے کی روشنی میں ہی سیاچن سے متعلق بات کی تھی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیاچن گلیشئر کی کشمیر کے مقابلے میں کوئی اقتصادی اہمیت نہیں ہے۔ بھارتی عسکری اور سیاسی قیادت کی ہٹ دھرمی کے باعث قیمتی جانیں اور بھاری اقتصادی وسائل ضائع ہو رہے ہیں۔سیاچن گلیشئر کی بے فائدہ جنگ میں بے پناہ وسائل اور سرمایہ ضائع ہو رہا ہے۔ جسے ‘ امن کی صورت میں،انہیں عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
بھارتی فوج کی جانب سے جارحانہ بیانات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ بھارت کی سیاسی قیادت کے بھی یہی خیالات ہیں۔ اسی لیے وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے‘ یہاں تک کہ کسی تیسری پارٹی کی طرف سے ثالثی قبول کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات شاید اس لیے بھی نہیں کرنا چاہتا کہ اُسے گمراہ کن اعداد و شمار کی مدد سے باور کرا دیا گیا ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات جارحیت کے لیے انتہائی سازگار ہیں‘ ؛تاہم بھارت کی فوج اور سیاسی قیادت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارتی دھمکیوں سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ چین اور پاکستان کے تعاون سے بننے والی معاشی راہداری کو سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اُس نے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے خطے میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے 60کروڑ ڈالر مختص کئے ہیں۔ چین بھارت کی اس چال سے واقف ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ مل کر بھارت کی ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ آج1971ء والا پاکستان نہیں ہے‘ بلکہ 2015ء کا نیو کلیئر اسلحہ سے لیس ایک مضبوط پاکستان ہے جو ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے۔