ترقی پذیر ممالک میں غریب لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا‘ وہ روزمرہ کی بنیاد پر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ مملکت کی اقتصادی صورتحال خراب ہونے کے ساتھ ساتھ بے لگام کرپشن کی وجہ سے بھی غریب لوگوں کے سماجی تحفظ کا کوئی باضابطہ انتظام نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ناگہانی آفت آتی ہے ، چاہے مسلسل بارشوں کی صورت میں ہو یا سیلاب اور زلزلوں کی صورت میں‘ قیامت زیادہ تر غریب لوگوں پر ہی ٹوٹتی ہے۔ کراچی میں چند روز قبل شب 1بجے کے قریب گلستان ِجوہر میں تودہ گرنے سے جھگی نشینوںکی جو ہلاکتیں ہوئیں اس پر پورا کراچی بلکہ پورا ملک ابھی تک اشک بار ہے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر تعداد بچوں کی تھی جو نیند کے دوران ہی ابدی نیند سو گئے۔ ہر واقعے کی طرح اس اندوہناک اور افسوسناک واقعے کی تحقیقات بھی شروع ہوئیں۔ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس مٹی کے پہاڑ پر ہونے والی چائنا کٹنگ کا ماسٹر مائنڈ ایک ڈی ایس پی تھا جس نے ان مفلوک حال بے آسرا لوگوں کو یہاں بسایا تھا، تاکہ کوئی اور اس مٹی کے تودے پر قبضہ نہ کرسکے اور بعد میں اس جگہ کو پلاٹ کی صورت میں تقسیم کرکے ناجائز دولت کمائی جا سکے۔ چائنا کٹنگ سے متعلق کراچی کے عوام کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسی مذموم غیر قانونی اور غیر اخلاقی کارروائیوں میں کراچی کی بعض سیاسی ومذہبی جماعتیں ملوث پائی گئی ہیں۔ اس ضمن میں کچھ سرکاری افسران کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ چائنا کٹنگ کے ذریعے پلاٹوں کے ناجائز کاروبار میں کراچی پولیس میں بعض جرائم پیشہ عناصر بھی شامل تھے۔ اس طرح گزشتہ حکومت کی حکمرانی کے دور میں کراچی میں سب سے زیادہ پلاٹوں کا ناجائز کاروبار ہوا جس میں ایک مستند معلومات کے مطابق بعض تعمیراتی کمپنیاں بھی شامل تھیں۔ یوں پورا کراچی لینڈ مافیا کی زد میں آ کر اپنی شناخت کھوتا جارہا تھا، بلکہ کسی حد تک کھو گیا تھا لیکن ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد یہ سلسلہ کافی حد تک رُک چکا ہے اور ان عناصر کے خلاف منظم کارروائیاں ہورہی ہیں جو اس غیر قانونی کاموں میں مصروف تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سیاسی وفوجی قیادت باہم مل کر ٹارگٹڈ آپریشن شروع نہیں کرتی تو جرائم پیشہ عناصر خالی گھروں پر بھی قبضہ کرنے سے نہیں چوکیں گے۔ دراصل ٹارگٹڈ آپریشن کے خلاف دبے دبے الفاظ میں وہی عناصر شور وغوغا کررہے ہیں جنہیں ناجائز آمدنی اور محنت کئے بغیر پیسہ بنانے کی عادت پڑ چکی تھی۔ اس ضمن میں ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ سندھ کی بیورو کریسی اور پولیس ایسے عناصر کے ساتھ تعاون کرتی ہے جو پلاٹوں کے ناجائز کاموں میں مصروف ہیں۔ ہر چند کہ یہ عناصر بظاہر چھپ گئے ہیں یا غیر فعال ہوگئے ہیں لیکن یہ اب مناسب وقت کا انتظار کررہے ہیں تاکہ دوبارہ قانون کی گرفت کو کمزورکرکے چائنا کٹنگ کے ذریعے لُوٹ مار کا بازار گرم کیا جاسکے۔ خود ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین نے چائنا کٹنگ کے حوالے سے سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور اپنے کارکنوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس قسم کی غیر قانونی حرکتوں سے دور رہیں۔
کراچی کے علاوہ پورے سندھ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس صوبے میں ہر سیاسی پارٹی اپنے مفاد کی روشنی میں کام کرتی ہے، جبکہ حکمران جماعت سب سے زیادہ عوام کا معاشی استحصال کرتی ہے اور بعض حکومتی شخصیات کی کرپشن کی وجہ سے دیگر جرائم پیشہ عناصر کو حوصلہ ملتا ہے۔وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو کر ناجائز دولت کمانے کے کاروبار میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کرپشن کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنا ہے۔ یہ کاروبار جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ پولیس اور سیاسی کارکنوں کے
باہمی میل جول سے خوب ترقی کرتا ہے۔ٹارگٹڈ آپریشن کے ذریعے اس کا تھوڑا بہت سدباب ہوسکا ہے ۔ کرپشن کے خلاف ایسی کارروائیاں جاری رہنی چاہئیں‘ اسی میں کراچی کی بہتری مضمر ہے۔ اس ضمن میں یہاں یہ بات لکھنا بھی ضروری ہے کہ کچی بستیوں کے علاوہ کراچی میں جہاں جہاں جھگی نشین رہتے ہیں‘ ان کو باقاعدہ لینڈ مافیا اور پولیس کے ذریعہ پیسہ لے کر بسایاجاتا ہے اور ان سے ماہانہ بھتہ بھی وصول کیا جاتا ہے۔ گلستان ِجوہر میں جن افلاس زدہ ‘بے سہارا افراد کو تودے کے قریب بسایا گیا تھا‘ ان سے بھی ہر ماہ باقاعدہ پیسہ وصول کیا جاتا تھا یعنی وہ اپنی ہی جھگیوں میں کرائے دار کی حیثیت سے رہ رہے تھے اور زمین کی حفاظت پر بھی مامور تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پی پی پی کے دور میں یہ تودہ ایک اہم سرکاری شخصیت کو دیا گیا تھا۔اس میں کتنی حقیقت ہے ‘وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو چاہئے کہ وہ اس کی عدالتی تحقیقات کرائیں ،نیز جو عناصر اس میں شامل ہیں‘ انہیں عدالتوں کے ذریعے قرارواقعی سزا دلوائیں۔ ظاہر ہے کہ مرنے والے رزقِ خاک ہوگئے ہیںلیکن جو بچ گئے ہیں‘ ان کی مالی مدد ضرور ہونی چاہئے بلکہ انہیں رہنے کے لئے گھر بھی دئیے جانے چاہئیں تاکہ ان کے دُکھوں اور غموں کا مداوا ہوسکے۔ اس کے علاوہ وزارت بلدیات کو ایسی تمام
جھگیوں کا سروے کرانا چاہیے‘ جہاں جھگی نشین آباد ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے ان کو ان جھگیوں میں آباد کرانے والے کون ہیں؟ اس سروے کے ذریعہ لینڈ مافیا کا بھی پتہ چل جائے گا اور زمینوں پر ناجائز قبضہ چھڑا کر انہیں باقاعدہ ریگولرائز بھی کرایا جاسکے گا تا کہ بعد میں یہ زمینیں قانونی طورپر خریداروں کو فروخت کی جا سکیں۔ گلستان جوہر میں تودے کے گرنے سے ہلاک ہونے والوں کے علاوہ اس ''عروس البلاد‘‘ میں آئے دن جھگیوں میں آگ لگنے کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں، جس میں چھوٹے بچوں کے علاوہ بڑے بھی جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کاغذی کارروائی تو ہوتی ہے، لیکن حقائق کا پتہ چلتا ہے‘ نہ ہی انصاف کے بنیادی تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ شنید ہے کہ بعض تعمیراتی کمپنیوں کے مالکان جرائم پیشہ عناصرکے ساتھ خود ان جھگیوں میں آگ لگواتے ہیں اور بعد میں اس زمین کو کوڑیوں کے داموں خرید کر کروڑوں روپے کماتے ہیں۔یہ سلسلہ عرصہ ٔدراز سے جاری ہے؛ تاہم ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد رُک گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے عوام حکومت اور عسکری قیادت سے ملتمس ہیں کہ یہ آپریشن جاری رہنا چاہئے ، کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ہیں ۔بقول جون ایلیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے ہیں زباں میں کیا؟