گھر ٹوٹ رہے ہیں!

کل ٹھٹھہ سے زاہد کا فون آیا۔ وہ رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے، تدفین آپ کے آنے کے بعد ہوگی، میں نے ہامی بھرلی۔ زاہد مجھے بہت عزیز ہے، اپنی مدد آپ کے تحت اس نے تعلیم حاصل کی، باپ بچپنے میں مر گیا تھا، صرف ماں رہ گئی تھی جس نے دوسروں کے گھروں میں برتن مانجھ کر اسے بی اے تک پڑھایا تھا۔ کسی رحم دل آدمی کی سفارش پر اسے میونسپلٹی میں نوکری مل گئی ، گزر بسر مناسب انداز میں ہورہی تھی، پھر اچانک سیلاب آگیا، اس کا چھوٹا سا جھونپڑی نما گھر سیلاب کی نذر ہوگیا اور وہ ہزاروں متاثرین کی طرح سڑک پر آگیا۔ ماں کا ساتھ اور سایہ ساتھ تھا اس لیے گھبرایا نہیں۔ کچھ عرصہ متاثر ین کے ساتھ، کچھ عرصہ کیمپ میں گزارا، پھر اس نے وہاں سے اپنے ماموں کو فون کیا اور صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ اپنی بہن کو کچھ عرصہ آپ اپنے گھر میں رکھ لیں، سیلاب ختم ہوجائے گا تو واپس بھیج دیجیے گا۔ ماموں نے کہا کہ میرے گھر میں پنڈی سے مہمان آئے ہوئے ہیں، جگہ نہیں ہے، فی الحال آپ دونوں کیمپ میں رہیں۔ ماموں کے جواب سے اسے بہت دکھ ہوا لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا، اس نے اپنے ایک چچا کو فون کرکے اپنی ماں کو رکھنے کی درخواست کی، لیکن انہوںنے بھی اپنے حالات کا دکھڑا سناتے ہوئے معذرت کرلی۔ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں اور ان کے رویے کو دیکھتے ہوئے سخت مایوس ہوا۔ پھر اسے اچانک اپنی ایک دورکی خالہ کا خیال آیا کہ شاید وہ اس کی مدد کرسکیں۔ کیمپ میں رہتے ہوئے اس کی ماں کو بخار اورکالی کھانسی لگ گئی تھی، ڈاکٹروں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ ان کو اپنے کسی رشتہ دار کے ہاں لے جائو تاکہ بہتر ماحول میں ان کا بخار اتر سکے۔ اس کی دورکی خالہ کراچی میں مقیم تھیں، اس نے فون پر ا ن کی خیریت دریافت کرتے ہوئے بتایا کہ ماں سخت بیمار ہے، اسے کچھ دن آپ اپنے گھر پر رکھ لیں، جب بخار اتر جائے گا تو میں انہیں آکر واپس لے جائو گا۔ ان کی خالہ نے کہا کہ بیٹا مجھے تمہاری ماں کو اپنے گھر پر رکھنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن میری بہو اس کے لیے تیار نہیں ہوگی، وہ ہمارے کسی بھی رشتے دار کو یہاں آنا یا رکھنا نہیں چاہتی، مجھے انکار کرتے ہوئے بڑی شرمندگی ہو رہی ہے۔ زاہد، خالہ کی بات سن کر خاموش ہوگیا، آنکھوں سے کچھ آنسو گرے۔ اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا بخار اور کھانسی نے اس کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پھر اس نے عبدالستار ایدھی کے آفس فون کرکے اپنے بپتا سنائی اور مدد کی درخواست کی۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے جواب ملا کہ تم یہاں انہیں لے آئو، ہم اپنی ماں سمجھ کر اس کی خدمت کریں گے۔ وہ ٹھٹھہ سے اپنی ماں کو کراچی لے آیا، لیکن خاصی دیر ہوگئی تھی، بخار اور کھانسی نے حیات کی ڈور کاٹ دی تھی، وہ مرگئی، زاہد کو تنہا چھوڑ گئی۔
میں تدفین کے وقت زاہد کے پاس موجود تھا۔ اس نے مجھے جب اپنی روداد غم سنائی تو مجھے احساس ہوا کہ پاکستان میں اب مغرب کی طرح رشتے ناتے ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ مغرب میں بوڑھے اور بے سہارا لوگوں کے لیے شلٹر ہائوس(Shelter House) ہیں جہاں ان کی ہر قسم کی دیکھ بحال کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں بوڑھے اور بے سہارا لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے سوائے ستار ایدھی کے۔ زاہد کے رشتہ داروں نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ اب پاکستا ن بالخصوص 
بڑے شہروں میں روز مرہ کی تکلیف دہ داستان بن چکی ہے۔ جب تک انسان جوان رہتا ہے، کمانے کے قابل ہوتا ہے، تمام رشتے جڑے رہتے ہیں، لیکن جیسے ہی وقت کے ہاتھوں عمر ڈھلنا شروع ہوتی ہے، جسم کمزوراور ناتواں پڑنے لگتا ہے تو اپنے بیگانے ہوجاتے ہیں۔ سارا ماحول اجنبی بن جاتا ہے، آنکھوں میں نظر آنے والا دوری کا احساس انسان کو کچوکے مارنے لگتا ہے۔ پھر اسی ناقابل بیان اذیت کو لے کر بوڑھے اپنے آخری قیام گاہ کی طرف چلے جاتے ہیں اور اجنبی بن جانے والے سکھ کا سانس لیتے ہیں، گویا وہ بزرگ جب تک زندہ تھے انہی کی وجہ سے جی رہے تھے۔ یہ ہے وہ منافقت جو اب پاکستانی معاشرے میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اچھے اچھے کھاتے پیتے لوگ بزرگ ماں باپ کو عبدالستار ایدھی کے مہمان خانے میں چھوڑ آتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں، تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم بہت مصروف ہیں، گھر کی خواتین ان کی دیکھ بھال نہیں کرسکتیں، اس لیے ایدھی ہوم لے آئے ہیں، جہاں ان کی اچھی نگہداشت ہوتی ہے۔ وہ مزید جواب دے بھی نہیں سکتے کیونکہ ان 
کا ضمیر مر چکا ہوتا ہے۔ انہیں اسلام یا انسانی اقدار کا کوئی پاس نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو دنیا اور پیسے کی طلب نے انہیں اندھا کردیا ہوتا ہے، نہ آگے دیکھ سکتے ہیں نہ پیچھے اور نہ ہی انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انہیں بھی جلد یا بدیر یہ دن دیکھنا پڑیںگے۔ میں سوچتا ہوں، ستار ایدھی نے ہزاروں گھروں کی اپنے رشتہ داروں سے بے رخی اور بے اعتنائی پر پردہ ڈال رکھا ہے اور ان کی سماج میں ظاہری عزت کو بھی داغ لگنے سے بچا رکھا ہے۔ لیکن کب تک؟ رشتوں اور گھروں کا ٹوٹنا اس بات کی دلیل ہے کہ خدا ہم سب سے ناراض ہوگیا ہے۔ سیاسی و معاشی حالات کا زوال پذیر ہونا اور روز مرہ ہونے والی قتل وغارت گری نے جہاں معاشرتی اقدارکو تباہ و برباد کردیا ہے، وہیںانسانوں کو بے توقیر بناکر ان کے آخری دنوں کو ایسا بے سہارا کردیا ہے جس کا مشاہدہ کرکے اذیت ناک تنہائی کا احساس شدید ہونے لگتا ہے۔ ماں ، باپ، بہن، بھائی کے علاوہ اور بھی رشتے ہیں جو قابل احترام اور قابل توجہ ہونے چاہئیں، لیکن ہم ان کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں وہ ہم سب کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل رہا ہے جہاں نجات کے تمام راستے مسدود ہو رہے ہیں اور ہم اپنے ہاتھوں سے بدی کے کانٹوں پر اپنے دائمی گھر بنا رہے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں