دہشت گرد منظم ہو رہے؟

پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملے کے صرف ایک سال بعد دہشت گردوں نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرکے نوجوان طلبہ، اساتذہ اور کارکنوں کو شہید کردیا۔ حملے میں ملوث چار دہشت گردوں کو فوجی کمانڈوز نے ہلاک کردیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دہشت گرد کس طرح یونیورسٹی میں داخل ہوئے؟ کیا پولیس کے علاوہ صوبے کے دیگر انٹیلی جنس اداروں کو ان دہشت گردوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی؟ کیا یہ انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں ہے؟ یقیناً حکومت ان سوالات کا جواب ضرور دے گی اور وہ سوچ بھی رہی ہوگی کہ دہشت گرد کس طرح یونیورسٹی کے اندر داخل ہوئے؟ کیا انسانیت کے ان قاتلوں کو پہلے سے کچھ معلومات حاصل تھیں یا ان کی کسی نے رہنمائی کی تھی؟ کیونکہ آرمی پبلک اسکول میں حملہ کرنے والوں کو اندر سے مدد حاصل تھی، کیا باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی میں بھی انہیں اسی قسم کا تعاون حاصل تھا؟ تاہم اس سلسلے میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ان دہشت گردوں نے باقاعدہ افغانستان میں تربیت حاصل کی تھی (ننگر ہار صوبے میں) اور ان کا تعلق خلیفہ منصور کے گروپ سے تھا۔ خلیفہ منصور ایک عرصے تک لشکر جھنگوی میں شامل رہا، اس کے بعد وہ تحریک طالبان میں شامل ہوا اور جب اس کے تحریک طالبان سے اختلافات ہوگئے تو اس نے خود اپنا گروپ بنا لیا۔ وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ اور افغان انٹیلی جنس کے لیے بھاری معاوضے پر کام کرتا ہے۔ خلیفہ منصور کے علاوہ افغانستان کے پاکستان کی سرحدوں سے ملنے والے صوبوں میں وہ تمام دہشت گرد روپوش ہوگئے جو فاٹا سے ضرب عضب شروع ہونے کے بعد فرار ہوگئے تھے۔ وہاں انہیں پاکستان دشمن ایجنسیاں پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کرانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
حکومت پاکستان نے کئی مرتبہ افغان حکومت سے برادرانہ اپیل کی ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کردے یا پھر خود ان کے خلاف کارروائی کرکے ان کا صفایا کرے تاکہ دونوں ملکوں کے مابین دہشت گردی کی لعنت ختم ہوسکے اورامن کے امکانات پیدا ہوں۔ لیکن افغان حکومت نے اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کیا، بلکہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کو ان دہشت گردوں کے ساتھ میل جول بڑھانے کی مکمل آزادی دے رکھی ہے، جو اس کے ایما پر پاکستان میں دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والا حملہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کو روکنے یا اس کو ختم کرنے کے لیے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایک بار پھر افغان حکومت سے بات چیت کی اور انہیں بتایا ہے کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ افغانستان سے ہوا ہے، جس کو روکنے کی تمام تر ذمہ داری افغان حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ فی الحال افغان حکومت نے آرمی چیف کی شکایت پر کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا، لیکن اب یہ بات طے ہے کہ اگر افغان حکومت نے ان دہشت گردوں کو لگام نہیں دی اور بھارتی خفیہ ایجنسی''را‘‘ کی پاکستان کے خلاف خفیہ کارروائیوں کو نہ روکا تو پاکستان کی طرف سے افغانستان میں امن کے قیام سے متعلق چار فریقی کانفرنس کو کامیابی سے ہمکنار کرنا مشکل ہو جائے گا۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اگر افغان حکومت خلوص دل سے یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغان طالبان مذاکرات کی میز پر نہیں آئیں گے تو اس کو چاہیے کہ وہ پہلے پاکستان کے خلاف افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کو روکنے میں کسی قسم کے پس و پیش کا 
مظاہرہ نہ کرے ، ورنہ چار فریقی کانفرنس کسی بھی طرح افغانستان میں امن قائم نہیں کرسکے گی جبکہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان مزید غلط فہمیاں بھی پیدا ہوں گی۔ افغانستان کی حکومت کو اس ناقابل تردید حقیقت کا ادراک ہے کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے، دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ یہاں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت بظاہر افغانستان اور بھارت پاکستان کے خلاف ایک ہی ایجنڈے پرکام کررہے ہیں، یعنی پاکستان کو مسلسل عدم استحکام سے درچار رکھا جائے۔ لیکن اس طرح نہ تو افغانستان میں امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی بھارت کے اندر ہونے والی دہشت گردی ختم ہوسکے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور افغانستان دونوں مل کر پورے خطے میں دہشت گردی کی آگ پھیلا رہے ہیں جو آئندہ کسی بھی وقت ایک خوفناک جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اس بے چین کردینے والی صورت حال کے پیش نظر امریکہ کا رول انتہائی اہم ہے۔ اگر امریکہ نے بھارت کی طرف سے افغانستان کے اندر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف مذموم حرکتوں کو نہ روکا تو آئندہ اس خطے میں خوفناک تصادم کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوگی کیونکہ امریکہ اور بھارت کے درمیان اسٹریٹیجک پارٹنر شپ قائم ہو چکی ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے ساتھ امریکہ کا دفاعی معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ چنانچہ امریکہ بیک وقت ان دونوں ملکوں سے پاکستان کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کو رکوا سکتا ہے، اگر نہیں تو پھراس خطے میں امن کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی ذمہ داری امریکہ پر ہی عائد ہوگی۔
امریکہ کا یہ تضاد ناقابل فہم ہے کہ ایک طرف وہ اس سال کے اختتام پر افغانستان سے چلے جانا چاہتا ہے تو دوسری جانب یہ امید رکھتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاکر انہیں افغان حکومت میں شامل ہونے کی ترغیب دے تاکہ افغانستان میں جنگ ختم ہوسکے اور امن قائم ہو۔ امریکہ کی یہ سوچ اس وقت مثبت امکانات پیدا کرسکے گی جب بھارت اور افغانستان دونوں پاکستان کے خلاف نہ تو دہشت گردوں کو کسی قسم کا تعاون فراہم کریں اور نہ ہی انہیں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرنے کی ترغیب دیں۔ یہ کام زیادہ مشکل نہیں، صرف سیاسی عزم کی ضرورت ہے اور جو وقت کا تقاضا بھی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان ، بھارت اور افغانستان میں عدم اعتماد کی فضا بر قرار رہے گی، دہشت گرد اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر اس خطے میں جنگ کے شعلے بھڑکاتے رہیں گے جس کے باعث امن کے تمام امکانات ختم ہوجائیں گے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں