پاک افغان انٹیلی جنس اداروں میں تعاون

یہ امرخوش آئندہے کہ پاکستان اور افغانستان کے انٹیلی جنس سربراہوں کے درمیان باضابطہ ملاقات اسلام آباد میںہوئی ہے جس میں دونوں سربراہوں نے دہشت گردی کے واقعات کو موثر طورپر روکنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس تعاون سے پاکستان اور افغانستان میں ان عناصر کی بیخ کنی ممکن ہوسکے گی، جو ان دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی اختلافات سے فائدہ اٹھاکر نہ صرف دہشت گردی کا ارتکاب کررہے ہیں بلکہ ان کے درمیان اختلافات میں اضافہ کرکے تلخیوں کو بھی جنم دے رہے ہیں۔ پاکستان گذشتہ کئی سالوں سے یہ حقیقت پسندانہ سوچ رکھتا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہوگا تو پاکستان میں بھی امن کے مثبت اثرات مرتب ہونگے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر سطح پر یہ کوشش کررہا ہے کہ کسی طرح افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کامیاب ہوجائے تاکہ آئندہ دہشت گردی کے تکلیف دہ واقعات ختم ہوسکیں، جن میں اب تک ہزاروں بے گناہ افراد مارے جاچکے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ سے ان عناصر کا پتہ چل سکے گا، جو ان دونوں ملکوں میں دہشت گردی کی ہولناک کارروائیوں کا ارتکاب کرکے حالات کو خراب کررہے ہیں، جسکی وجہ سے امن کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
اس ضمن میں پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے افغان حکومت کو یقین دلایا کہ پاکستان ہر سطح پر افغانستان میں امن کے قیام کے لئے ان کے ساتھ تعاون کرے گا، تاہم پاکستان کی نیک خواہشات کا افغان حکومت کی جانب سے زیادہ حوصلہ افزا جواب نہیں مل سکا ، بلکہ جب کبھی افغانستان کے اندر کسی مقام پر افغان طالبان کوئی کارروائی کرتے تھے تو بغیر سوچے سمجھے اس کاالزام پاکستان پر عائد کیا جاتا ؛ حالانکہ افغان طالبان اپنی مخصوص سوچ اور فلسفے کے تحت اپنے ملک میں قابض فوج کے خلاف نبرد آزما ہیں، نیز یہ بات افغان حکومت کو فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ افغان طالبان افغانی ہیں اور ماضی قریب میں یہ لوگ افغانستان میں حکومت بھی کرچکے ہیں اس لیے ان کے ساتھ بات چیت کرکے ہی افغانستان کے مسئلہ کا حل نکالا جاسکتا ہے، طاقت اور تشدد کے استعمال سے کبھی بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ گذشتہ چودہ برس سے امریکہ اور اس کے اتحادی افغان طالبان کے خلاف فوجی طاقت استعمال کر کے انہیں ہلاک کررہے ہیں، تو دوسری طرف امریکی اور افغان حکومت یہ امید بھی رکھ رہے ہیں کہ افغان طالبان جمہوریت کی آغوش میں افغان حکومت کا حصہ بن جائیں گے، لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان گذشتہ دو برسوں سے افغان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کررہاہے۔ قطر میں ان کے سیاسی دفتر کا قیام بھی انہی کوششوں کا حصہ ہے، لیکن سابق صدر حامد کرزئی کی وجہ سے قطر میں مجوزہ مذاکرات شروع نہیں ہوسکے۔ حامد کرزئی پاکستان دشمنی میں سب سے آگے ہے۔ اب پاکستان امریکہ ، چین، افغانستان کی مدد سے ایک بار پھر افغانستان میں امن کے لئے کوشش کررہا ہے۔مری میں گزشتہ سال اس سلسلے میں پہلے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔ اب یہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونے والے ہیں، جن میں افغان طالبان نے شرکت کے ارادے کا اظہار کیا ہے، لیکن کیونکہ افغانستان کا معاملہ انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کرچکاہے، اس لئے چار ملکی مذاکرات سے جلد کوئی نتیجہ نکلنا آسان نہیں ہوگا۔ افغان طالبان کا یہ مطالبہ ہے کہ بیرونی افواج افغانستان سے نکل جائیں تب جاکر بات چیت کامیاب ہوسکتی ہے۔یہ ایک صحیح موقف محسوس ہوتاہے، لیکن امریکی قیادت نے 
بارہا یہ کہا ہے کہ وہ افغانستان سے فی الحال نہیں جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے دس پندرہ ہزار سپاہی افغانستان میں موجود ہیں اور وہ افغان فوج کے ساتھ ملکر افغان طالبان کے خلاف کارروائیاں بھی کررہے ہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان اور افغانستان انٹیلی جنس کے سربراہ ملاقات کرکے یہ عہد کررہے ہیں کہ دونوں ملک ان عناصر سے متعلق معلومات حاصل کرکے ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں جو ہولناک دہشت گردی کرکے نہ صرف ان دونوں ملکوںمیںامن کے کاز کو نقصان پہنچا رہے ہیں، بلکہ معصوم افراد کی ہلاکتوں میں اضافہ بھی کررہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں چارسدہ میں واقعہ باچا خان یونی ورسٹی میں دہشت گردوں نے جو حملہ کیا تھا وہ افغانستان سے آئے تھے اور خاصے تربیت یافتہ تھے۔ انہیں خلیفہ منصور نے بھیجا تھا۔ دہشت گردوں کے اس حملے میں 22معصوم طلبا ، اساتذہ اور اسٹاف کے دیگرافراد شہید ہوئے تھے۔ گزشتہ سال دسمبر میں آرمی پبلک اسکول میں 140طلبا کو بھی اسی قسم کے دہشت گردوں نے شہیدکیا تھا، جو افغانستان سے وارد ہوئے تھے، اس لئے اگر افغانستان کی حکومت نے اپنے صوبوں میں روپوش دہشت گردوں کی بیخ کنی نہیں کی تو پاکستان اور افغانستان دونوں میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکے گا، چنانچہ انٹیلی جنس شیئرنگ کے ساتھ ساتھ افغان حکومت پاکستان دشمن عناصر کو اپنے صوبوں سے نکالے بلکہ پاکستان کے حوالے کردے تاکہ انہیں عدالت کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دی جا سکے اور انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوسکیں ۔
تاہم پاکستان کے خلاف افغانستان کے راستے ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ان عناصر کو بھارت کی مکمل مددحاصل ہے۔ اس کا جاسوسی ادارہ ''را‘‘ افغانستان میں بہت زیادہ فعال ہے، بلکہ بعض مستند معلومات کی روشنی میں وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی تربیت بھی کررہا ہے۔ افغان حکومت بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے ، لیکن کیونکہ بھارت امریکہ کے ساتھ ملکر افغان حکومت کی مالی مدد کررہا ہے ،اس لئے افغان حکومت نے ''زبان بندی‘‘ اختیار کی ہوئی ہے، بلکہ اس نے حال ہی میں بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک معاہدہ بھی کرلیا ہے، جس کے تحت بھارتی سفارت کاروں کو افغانستان میں آنے کے لئے کسی قسم کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس طرح پاکستان دشمن عناصر بھارتی سفارت کاروں کے روپ میں آسانی سے افغانستان آجاسکیں گے۔اس صورت میں یہ سوچنا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان اچھے سیاسی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں، یا پھر امن قائم ہوسکتا ہے، نا ممکن بات ہے۔ بھارت نے افغانستان کے عوام کی اکثریت میں پاکستان کے خلاف جو زہر بھرا ہے اس کی وجہ سے تلخیوں اور بدگمانیوں میںمزیداضافہ ہوا ہے۔ اب یہ طے کرنا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کن بنیادوں پر پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے، اور کیا اسکی یہ امید بجا ہے، کہ ان حالات میں پاکستان افغانستان میں امن کے لئے کوئی موثر کام کرسکے گا؟ ذرا سوچئے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں