امریکہ میں چند روز

(گزشتہ سے پیوستہ )
امریکہ میں اس وقت جو غیرسیاسی طاقتیں ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کررہی ہیں ‘ان میں یہودی لابی کے ساتھ بھارتی لابی بھی مل کر کام کررہی ہے۔یہودی لابی کی طاقت اور اس کے امریکہ میں اثر و رسوخ سے متعلق جو باتیں معلوم تھیں اُن کا مظاہرہ میں نے ان انتخابات میں دیکھا ہے۔بھارتی لابی بھی ری پبلیکن کے لئے کام کررہی ہے، تاہم مجھے ایسے مالدار بھارتی افراد بھی ملے ہیں جو ہلیری کلنٹن کے لئے نہ صرف چندہ دے رہے ہیں بلکہ ان کے لئے کام بھی کررہے ہیں۔اس دوہری حکمت عملی کا مقصد کیاہے؟ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ہارگئے توہلیری کلنٹن سے بھارت کو رابطہ کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔اس وقت امریکہ میں یہودیوں کی آبادی 4 فیصد سے زیادہ نہیںہے، لیکن یہ ذہین اور فطین افراد امریکہ کی 80 فیصد اکانومی کو کنٹرول کررہے ہیں۔بڑے بڑے میڈیا گروپ ان کے پاس ہیں اور جو نہیں ہیں وہ بھی ان کے زیر اثر ضرور ہیں۔یہودی لابی ہلیری کلنٹن سے زیادہ ان کے شوہر سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے خلاف ہے کیونکہ انہوںنے فلسطینیوں کی حمایت کی تھی اور اسرائیل کی فلسطین میں توسیع پسندانہ پالیسوں کی مخالفت کرنے کے علاوہ فلسطینیوں کے لئے ایک آزاد ملک کے لئے بھی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی ‘یہ دوسری بات ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے‘بلکہ اسرائیل عربوں کے علاقوں میں مزید مکانات تعمیر کرارہا ہے، اور یروشلم کو اسرائیل کا درالخلافہ بنانے کے لئے رات دن کوشش بھی کررہا ہے۔بھارتی لابی اس کی غیر مشروط حمایت کررہی ہے، چنانچہ بل کلنٹن کا غصہ ان کی اہلیہ پر نکالا جارہا ہے۔تاہم یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ری پبلیکن پارٹی کے اندر بھی سخت مخالفت پائی جاتی ہے‘جس کا مظاہرہ مشی گن میں ہوا تھا‘جہاں میرا زیادہ تر قیام رہا ہے۔ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ ٹرمپ نے چھ سال قبل صدارتی انتخابات میں بارک اوباما کے خلاف صدارتی معرکہ میں ہلیری کلنٹن کی خفیہ طور پر مالی امداد کی تھی، جس کا انہوںنے مشی گن میں اعتراف بھی کیا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ دیگر ممالک سے امریکہ ہجرت کرنے والوں کے سلسلے میں بھی انہوںنے اب اپنی سوچ تبدیل کرلی ہے اور برملا کہہ ر ہے ہیں کہ امریکہ میں وہ ایسے تمام افراد کی آمد کا خیر مقدم کریں گے جو ہنرمند اور تعلیم یافتہ ہیں اور جو امریکہ کی اکانومی کو مستحکم بنانے میں اس کی مدد کرسکیں۔کالے امریکیوں کی بڑی تعداد ٹرمپ کے خلاف ہے اور یہ لوگ انہیں نسل پرست قرار دے رہے ہیں۔ان کے تمام ووٹ ہلیری کلنٹن کیلئے مخصوص ہوچکے ہیں ۔ہلیری کلنٹن ان کے لئے مزید روزگار کی فراہمی کا وعدہ کررہی ہیں اور یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ ان کی غربت اور محرومی کو دور کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں گی۔انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ابھی تک امریکہ میں کالے امریکیوں کے خلاف نسل پرستی کے جذبات پائے جاتے ہیں‘ جسے اب ختم ہونا چاہئے۔
امریکہ کے ان انتخابات میں دولت مند امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کررہے ہیں۔قدامت پسند امریکی بھی جن کی امریکہ میںنسل پرستی کے حوالے سے ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں آگے آگے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے آئندہ صدر منتخب ہوگئے تو وہ دہشت گردی کے خلاف انتہائی سخت اقدامات کریں گے، اور امریکی فوج کو زیادہ مضبوط بنانے کے لئے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔پاکستا ن کے لئے ٹرمپ کے دل میں کوئی گنجائش نہیں ہے‘ حالانکہ پاکستان کے پڑھے لکھے حلقوں میں اکثریہ کہا جاتارہا ہے کہ ری پبلیکن پارٹی بعض معاملات میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حمایت کرتی ہے‘ لیکن شاید اب ایسا نہیں ہوسکے گا‘ ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام بھی کھٹک رہا ہے۔ شاید ان کے دماغ میں یہ خیالات یہودی لابی نے مرتسم کئے ہیں ،جو روز اول سے پاکستان کے خلاف بھارتی لابی کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔ امریکہ میں قیام پذیرپاکستانیوں کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ خیالات اور زیادہ تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ اگر وہ آئندہ چار سال کے لئے امریکی صدر منتخب ہوگئے تو جنوبی ایشیا میں غیر روائتی جنگ کے شعلے بھڑکانے سے بھی دریغ نہ کریں ‘تاکہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کو نقصان پہنچایا جاسکے ۔ان حالات میں امریکہ میں پاکستان کی نہ تو کوئی موثر لابی ہے اورنہ ہی ہم آئندہ منتخب ہونے والے صدر پر پاکستان کے حق میںاثر انداز ہوسکیں گے۔ہمارے اندر کے نفاق نے ہمیں تنکوں کی مانند بکھیر کرر کھ دیاہے۔جہاں تک امریکہ میں مقیم عربوں کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی تمام تر امریکہ دوستی اور حمایت کے باوجود اسرائیل کی لابی کے سامنے بے اثر نظر آتے ہیں ‘حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر امیر عرب ممالک امریکہ کی غیر مشروط حمایت کرنے کے باوجود موجودہ امریکی انتخابات میں اپنی قوت اور حیثیت منوانے میں کامیاب نظر نہیں آرہے ہیں۔اس پس منظر میں فلسطینیوں کے حقوق کی کون حمایت کرے گا؟ دوسری طرف اسرائیل کو اپنی معاشی اور سیاسی قوت کے ذریعے نئے منتخب ہونے والے امریکی صدر کی حمایت سے یروشلم کو اسرائیل کا نیا دارالخلافہ بنانے سے کون روک سکے گا؟دنیا بھر کے مسلمان جن میں عرب بھی شامل ہیں‘اسرائیل کے ان غیر قانونی اقدامات کو نہیں روک سکیں گے۔جب مسجد اقصیٰ کو آگ لگائی گئی تھی تو اس وقت عرب اور دیگر مسلمانوں نے اسرائیل کا کیا بگاڑ لیا تھا؟ سوائے مظاہرے اور مذمت کرنے کے ‘ ان کے پاس رکھا ہی کیا ہے۔تاہم ڈونلڈ ٹرمپ اور ہلیری کلنٹن دونوں افغانستان میں امریکی فوج رکھنے کی حمایت کررہے ہیں،اور دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لیے امریکی فوج کو مزید اختیارات دینے کے دونوں حق میں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ان کے خیالات سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ اگر وہ آئندہ امریکی صدر منتخب ہوگئے تو مشرق وسطیٰ میں ان کی پالیسی جارحیت پر مبنی ہوگی۔اس کے بر عکس ہلیری کلنٹن بات چیت کے ذریعہ مشرق وسطیٰ سمیت تمام دیگر معالات کو حل کرنے کی کوشش کریں گی‘ جیسا کہ بارک حسین اوباما نے ایران کے ساتھ مذاکرات کرکے ان کے نیوکلیئر پروگرام کو ختم کرادیا ہے۔ڈیمو کریٹک پارٹی میں ہلیری کلنٹن کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی ہے‘ جس طرح کا مظاہرہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف خود ان کی پارٹی کے ذمہ دار عہدیداران نے کیا ہے‘لیکن میرے مشاہدے کے مطابق ہلیری کلنٹن ڈیمو کریٹک پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے باوجود شاید امریکی صدر منتخب نہ ہوسکیں‘کیونکہ یہودی لابی ان کی مخالفت میں بہت زیادہ سرگرم ہے، لیکن امریکی انتخابات کے بارے میں کسی قسم کا حتمی فیصلہ صادر کرنا قبل از وقت ہے، خود امریکی دانشور اس سلسلے میں وثوق سے کچھ کہہ نہیں پارہے کہ آئندہ امریکہ کا صدر کون ہوگا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں