2015ء کے آخری دنوں میں نریندرمودی نے بنگلہ دیش کا سرکاری دورہ کیا اور ایک جلسے میں ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ بنگلہ دیش کو بھارتی فوجیوں نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر آزاد کرایا تھا، لہٰذا بنگالیوںکی آزادی کی جنگ میں بھارتی فوجیوں کا خون شامل ہے۔ نریندرمودی کے اس بیان کے بعد تمام لوگوںکے ذہنوں سے یہ بات ختم ہو جانی چاہئے کہ مشرقی پاکستان کی بغاوت میں بھارتی حکومت اور فوج دونوں شامل نہیں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کو بڑی طاقتوں کا تعاون حاصل تھا۔ انہوں نے مشرقی پاکستان پر فوجی یلغار سے پہلے امریکہ سمیت کئی ملکوںکا دورہ کرکے بنگالیوں کو آزادی دلانے کے لئے ان کی حمایت حاصل کی تھی۔ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ان کی یہ کوشش کامیاب ہوئی۔
ان افسوسناک واقعات کو چالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم حسینہ واجد جو گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آئی ہیں، وہ ایک بار پھر ان افراد پر جنگی جرائم کے مقدمات چلا رہی ہیں جنہوںنے بقول ان کے بنگالیوں کا قتل عام کیا تھا۔ نام نہاد ٹربیونل (جس کے ذریعے یہ مقدمات چلائے جا رہے ہیں) اسے انٹر نیشنل کا نام دیا جا رہا ہے جو عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیونکہ یہ خالصتاً مقامی سیاسی ٹربیونل ہے جسے حسینہ واجد نے بھارت کی ہدایت پر قائم کیا تاکہ پاکستان کو مسلسل بد نام کرکے دبائو میں رکھا جائے۔ اس نام نہاد ٹربیونل کے ذریعے اب تک جماعت اسلامی کے چھ سرکردہ رہنمائوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ ان تمام شہیدوںکو اپنے دفاع کے لئے وکیل کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ان چھ میں سے دو افراد مطیع الرحمن نظامی اور دلاور حسین، خالدہ ضیا کی حکومت میں2001ء سے 2006ء تک وزیر بھی رہے تھے۔ بنگلہ دیش میں ان کا شمار دانشوروں میں ہوتا تھا اور عالمی سطح پر بھی انہیں اسلامی تھنکر (مفکر) کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا تھا۔ لیکن نفرت اور عداوت میں جلنے والی حسینہ واجد کو اب صرف اپنے اقتدار اور پاکستان کو بد نام کرنے میں دلچسپی ہے۔ وہ بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔
حسینہ واجد نے اعلیٰ فوجی افسران سمیت پاکستان کے 162فوجیوں پر ان کی غیر حاضری میں مقدمہ چلانے کے لئے پانچ رکنی کمیٹی قائم کردی ہے جو اس بات کی چھان بین کرے گی کہ یہ پاکستانی فوجی کس حد تک بنگالیوںکو قتل کرنے اور ان کی عورتوںکی عصمتیں لوٹنے میں شامل تھے۔ اس کمیٹی میں وہ افراد شامل ہیں جو عوامی لیگ کے اہم رکن تسلیم کئے جاتے ہیں۔ یقیناً یہ خبر پاکستان کے لئے اچھی نہیں ہے۔ حسینہ واجد کے اس اقدام سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ایک بار پھر پاکستانی فوج کو بد نام کرنے کے لئے وہ تمام حربے استعمال کئے جا رہے ہیں جن سے پاکستان کا یہ اہم ترین ادارہ عوام کی نگاہوں میں بے توقیر ہو جائے۔ اصل میں یہ بھارت کا ایجنڈا ہے، عالمی سطح پر حسینہ واجد کے اس اقدام کی کوئی ملک حمایت نہیں کرے گا۔ نام نہاد ٹربیونل میں 2013ء سے 2015ء تک جو مقدمات چلائے گئے تھے وہ بھی شفاف نہیں تھے۔ سیاسی بنیاد پر چلائے جانے والے ان مقدمات کی وجہ سے خود بنگلہ دیش کا معاشرہ ایک طرف تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہا ہے اور دوسری جانب پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر آگئے ہیں۔
حسینہ واجد کو اس حقیقت سے روگردانی نہیں کرنی چاہیے کہ 1974ء میں بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت کے مابین ایک مشترکہ فیصلے میں طے پایا تھا کہ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا‘اسے فراموش کرکے آگے کی طرف بڑھنا چاہئے تاکہ باہمی تعلقات کے فروغ کے ذریعے خطے میں امن کے امکانات کو یقینی بنایا جاسکے۔ تین ملکوں کے درمیان اس معاہدے کی وجہ سے بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں نے بنگلہ دیش میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کی اور اس کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن اب بھارت کے اشارے پر اس اہم معاہدے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اب سیاسی افراد کے علاوہ پاکستانی سپاہیوں پر بھی مقدمات چلانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جو قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے، پاکستان کی وزارت خارجہ کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔
حیرت ہے کہ حسینہ واجدکو 1970-71ء کے دوران مکتی باہنی کی جانب سے نہتے بہاریوں اور دیگر غیر بنگالیوں پر ہونے والے بھیانک مظالم کیوں نظر نہیں آ رہے؟ ابتدا میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے بھارتی فوج کی مدد سے تقریباً ایک ہزار بہاریوںکو بیدردی سے قتل کیا تھا جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔ اس وقت کے مقبول ترین ہفتہ روزہ فارایسٹرن اکنامک ریویو کے جنوبی ایشیا کے نامہ نگار لارنس نشلترکے مطابق مکتی باہنی کے ایک غنڈے عبدالقادر صدیقی نے خود چند بہاریوں کو بھرے مجمعے کے سامنے سنگین گھونپ گھونپ کر قتل کیا تھا۔ اس ہولناک قتل کی فلم غیر ملکی ایجنسیوں نے محفوظ کی تھی جنہیں کوریج کے لئے خاص طورپر بلایا گیا تھا۔ بعد میں یہ فلم دینا بھر میں دکھائی گئی جس پر مہذب لوگوں نے برملا کہا کہ یہ فلم دیکھ کر احساس ہوا کہ بنگالی مسلمان عداوت اور نفرت میں کس درجے تک گر سکتے ہیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مشرقی پاکستان میں سقوط ڈھاکہ سے قبل بہاریوں کی آبادی سات لاکھ کے قریب تھی، مکتی باہنی نے بھارتی فوج کے ساتھ مل کر 20فیصد بہاریوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ 16دسمبر1971ء تک مشرقی پاکستان میں پاکستان کی فوج کی تعداد 34 ہزار تھی (بحوالہ نیو یارک ٹائمز) جس میں 23 ہزار انفینٹری کے جوان تھے جبکہ مشرقی پاکستان کو گھیرے میں لئے ہوئے بھارتی فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ سے چار لاکھ کے قریب تھی۔ اس کے علاوہ مکتی باہنی کے غنڈے گوریلا کارروائیوں کے ذریعے قتل وغارت گری کر کے پورے ملک میں خوف وہراس پھیلا رہے تھے۔ ادھر عالمی سطح پر بھارتی پروپیگنڈا جیت رہا تھا۔ ظاہر ہے، پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن خود بھارتی کمانڈروں نے اپنی تحریروں میں اعتراف کیا کہ قلیل تعداد کے باوجود پاکستانی فوج نے بڑی بہادری سے ہماری عددی برتری کا مقابلہ کیا۔ لہٰذا پاکستانی فوج کے خلاف بائیں بازوکی جانب سے کئے جانے والے اس پروپیگنڈے کی کوئی اہمیت نہیں کہ 93 ہزار پاکستانی فوجیوں نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ دراصل 93 ہزار میں زیادہ تعداد سویلین کی تھی جو سقوط ڈھاکہ کے بعد وہاں رہ گئے تھے۔ حسینہ واجد کی طرف سے پاکستانی سپاہیوں کے خلاف ظلم وتشدد کا مقدمہ چلانے کی مذموم کوشش خطے میں امن کے ان امکانات کو ختم کردے گی جو 1974 ء کے معاہدے کے تحت روشن ہوا تھا۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اس مسئلے پر یکجا ہوکر بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے پاکستان کے سپاہیوں پر نام نہاد مقدمہ چلانے کی حرکت کی مذمت کرنی چاہئے اور بنگلہ دیش کے سفارت خانے کے سامنے احتجاج کرنے سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ اسلامی تنظیم کانفرنس کو متحرک کرکے ان مقدمات کے خلاف مذمتی قرارداد بھی پیش کرنی چاہئے اور انہیں روکنے کے لئے ہر ممکن اقدام کرنا چاہئے۔