طویل المدت جنگ

پاکستان گزشتہ پندرہ برسو ں سے تکلیف دہ حد تک دہشت گردی کا شکار ہے۔ اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں پندرہ ہزار سے زائد دہشت گردی کے واقعات ہوچکے ہیں جن میں ساٹھ ہزار سے زائد عام شہری اور چھ ہزار سے زیادہ فوجی شہید ہوچکے ہیں۔ مالی لحاظ سے ایک سو بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، دوسرے لفظوں میں پاکستان نے اس بھیانک عفریت کو ختم کرنے کے سلسلے میں ایک سو بلین ڈالر خرچ کیے ہیں اور یہ اخراجات ابھی جاری ہیں کیونکہ دہشت گردی میں کمی تو ضرور آئی ہے لیکن یہ فی الحال مکمل طور پر ختم ہوتی نظر نہیں آرہی؛ حالانکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ضرب عضب کی وجہ سے بہت حد تک دہشت گردوں کا صفایا ہوچکاہے، خصوصیت کے ساتھ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں۔ لیکن اب بھی یہ عناصر ملک کے دوسرے حصوں میں محترک اور فعال ہیں۔ لاہور میں اتوار کے روز جو المناک واقعہ ہوا (جس میں آخری اطلاعات آنے تک 76افراد شہید ہوچکے ہیں اور جن میں کافی تعداد بچوں اور خواتین کی بھی ہے) وہ اس بات کی دلیل ہے کہ دہشت گردوں کا خفیہ نیٹ ورک اب بھی موجود ہے۔ پاکستان کے اندر اور باہر بھی دہشت گرد اپنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہیں۔ بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو نے جو انکشافات کئے ہیں، ان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ بھارت سمیت بعض ممالک کس طرح پاکستان کو معاشی طور پر عدم استحکام سے دو چار کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف ہیں۔ بلوچستان میں پاکستان کی سالمیت کے خلاف جو تخریب کاری ہو رہی ہے، اس کی مالی اور فنی امداد بھارت کر رہا ہے، بلکہ بھارت کی موجودہ اعلیٰ قیادت اجیت ڈوول کی سربراہی میں پاکستان کے اندر اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردی کرارہی ہے۔ ماضی میں پاکستان کے اہل قلم کے علاوہ فہم و ادراک رکھنے والے سیاست دان مسلسل عالمی سطح پر یہ کہہ رہے تھے کہ بھارت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے ذریعے اس کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں پاکستان کے مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز نے امریکی سیکرٹری خارجہ کو بھارت کی بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردی سے متعلق تین دستاویزات پیش کی تھیں، جن میں حقائق وشواہد کی روشنی میں ظاہر کیا گیا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے اور وہ پاکستان کو تباہ وبرباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری نے سرتاج عزیز سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان دستاویزات کی روشنی میں بھارت سے بات چیت کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا؛ چنانچہ اس وقت بھی پاکستان کے مختلف حصوں میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس میں وہی عناصر پیش پیش ہیں جن کی مالی مدد کل بھوشن نے چاہ بہار میں بیٹھ کر کی تھی۔ یقیناً بھوشن کے اعترافاتی بیانات کے بعد بھارت کا پاکستان دشمنی پر مبنی چہرہ سامنے آگیا ہے نیز بھارت پر پاکستان میں دہشت گردی سے متعلق الزامات بھی درست ثابت ہوگئے ہیں۔ اب پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر یہ بتائے کہ بھارت کس طرح پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرا رہا ہے۔ جب تک بھارت کو ان مذموم کارروائیوں سے نہیں روکا جائے گا، دہشت گردی کی جنگ ختم نہیں ہوگی۔ بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ افغانستان کے راستے پاکستان میں افغان دہشت گرد داخل ہوکر دہشت گردی کر رہے ہیں، جس میں باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔ کچھ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کو توڑنے کے لئے (خاکم بدہن) چاروں طرف سے اس کو گھیرا جا رہا ہے، جس میں بدقسمتی سے خود پاکستان کے گمراہ عناصر بھی شامل ہیں جو محض چند سکوں کی خاطر اپنے ہی ملک کو معاشی طورپر کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یقیناً ان عناصر کے خلاف سخت ترین تادیبی کارروائی ہونی چاہئے، اگر انہیں ڈھیل دی گئی یا ان سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ عناصر شیر ہوکر دہشت گردانہ کارروائیوں کو مزید تیز کردیں گے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آئیں گے۔ 
پاکستان کے ہر خاص و عام کو اب یقین ہوجانا چاہیے کہ بھارت کے ساتھ کبھی ہمسائیگی کے اچھے تعلقات استوار نہیں ہوسکتے کیونکہ اس کا ایجنڈا وہی ہے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت تھا۔ عالمی تناظر میں بھارت کو بعض بڑی طاقتوں کی بھی حمایت حاصل ہے، جن کو پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام بالکل پسند نہیں اور وہ اس پروگرام کو تلف کرنے میں بھارت جیسے پاکستان دشمن ملک کا ساتھ دے رہے ہیں۔ خود بھارت کی موجودہ حکومت کا اور اس کی انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا بھی یہی ایجنڈا ہے کہ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے افراتفری پیدا کرکے اس کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے بعد اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرلیا جائے۔
اس کے بر عکس پاکستان کی موجودہ حکومت ہر قیمت پر بھارت کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت پاکستان کی ان نیک خواہشات کا مثبت جواب دے گا؟ ہر گز نہیں۔ وہ موقعے کی تلاش میں ہے کہ کسی طرح پاکستان میں سیاسی ومعاشرتی حالات مزید بگڑ جائیں تو پھر وہ Cold Start Doctrineکے ذریعے پاکستان میں مداخلت کرے، بلکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کا اشارہ بھی دیا ہے؛ چنانچہ پاکستان میں پائے جانے والے موجودہ غیر یقینی حالات کے پیش نظر دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت عرصے تک جاری رہے گی۔ اس کی وجہ ہمارے دو پڑوسی ممالک بھارت اور افغانستان ہیں جو امریکہ اور برطانیہ کی آشیرباد سے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے گڑ بڑ پھیلا رہے ہیں۔ یہ جنگ پاکستان کے عوام، سیاست دان اور عسکری قیادت کو باہم مل کر لڑنی ہوگی، بلکہ فی الواقع وہ لڑ بھی رہے ہیں، غیر ملکی امداد اور حمایت کے ذریعے پنپنے والے دہشت گردوں کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ اگر ان کا مکروہ وجود برقرار رہا تو آئندہ دنوں میں یہ پاکستان کے سیاسی ومعاشرتی حالات کو مزید خراب کرنے میں کوئی پس وپیش نہیں کریں گے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی سفارت کاری کو مؤثر بناتے ہوئے عالمی فورمز کو بھارت کی پاکستان کے اندر کھلی مداخلت کا نوٹس دلوائے، اس کی مذموم کارروائیوں کو رکوانے کے لئے دبائو ڈالے، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی اس مسئلے کو اٹھانا چاہئے تاکہ یہ بات ریکارڈ پر آجائے کہ پاکستان نے ہر فورم پر بھارت کی مداخلت کا پردہ چاک کیا ہے، جس کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اگر عالمی طاقتوں نے پاکستان کے خلاف بھارت کی مداخلت کا نوٹس نہ لیا تو پھر ان دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کو کون روک سکے گا؟ تنگ آمد بجنگ آمد!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں