بھارت کی سوچ تبدیل ہو گی ؟

بھارت پاکستان سے بڑا ملک ہے۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی رکھنے والا یہ ملک نہ تو اپنے ملک سے غربت وافلاس کم کرنے میں کامیاب ہواہے‘ نہ ہی معاشی ترقی کے ثمرات ایک عام بھارتی کو دستیاب ہوسکے ہیں۔ مزیدبرآں یہ دنیا میں سب سے زیادہ مہلک ہتھیار خریدنے والا ملک بن چکا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا آہستہ آہستہ روایتی ہتھیاروں کے علاوہ ایٹمی ہتھیاروں کا مرکز بن چکا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت عالمی سطح پر پاکستان کے مقابلے میں زیادہ دوست رکھتا ہے، تو سوال یہ ہے کہ پھر بھارت پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسائیگی کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش میں بڑے پن کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتا؟ پاکستان کی جانب سے دوستی اور تعاون کے تمام ترجذبات اور کوششوں کے باوجود مثبت جواب نہیں مل سکا، جو اپنی جگہ انتہائی افسوس کی بات ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ برس ہا برس گزرنے کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین ایک دوسرے پر اعتماد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھارت کی موجودہ قیادت ''منہ میں رام رام اور بغل میں چھری'' کی پالیسی پر گامزن ہے جو نظر بھی آرہی ہے۔ بھارت کی یہ سوچ یا حکمت عملی پاکستان کو بھی اپنی بقاء اور سا لمیت کے حوالے سے اس کی مکروہ چالوں کی نفی کرنے کے سلسلے میں بھارت مخالف رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے ! 
دراصل بھارت کا بڑا زمینی رقبہ موجودہ قیادت کی ذہنیت کو بڑا بنانے میں ناکام رہا ہے۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ بھارت عالمی فورم پر بھی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے سے باز نہیں آتا۔ یہاں تک کہ بعض مسلم ممالک کے ساتھ بھی اس کا رویہ پاکستان مخالف رہا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح کیسے اور کن بنیادوں پر یہ دونوں پڑوسی ملک جغرافیائی اعتبار سے قریب ہونے کے باوجود ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹ سکیں گے؟ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے ذریعے دوستی ایک اچھا شگون ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ تجارت بھی بھارت اپنے مفادات اور اپنی شرائط پر کرنا چاہتا ہے، جبکہ چین کے ساتھ اس کی تجارت روز افزوں بڑھ رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چین بھارت کے مقابلے میں نہ صرف بڑا ملک ہے، بلکہ معاشی ودفاعی اعتبار سے بھارت اس کی طاقت کو آئندہ کئی برسوں تک چیلنج نہیں کرسکے گا، اس لئے وہ چین کے ساتھ غیر مشروط تجارت کرنے پر مجبور ہے؛ تاہم وہ پاک چین دوستی کے حوالے سے پاکستان کے خلاف جارحیت کرنے سے خوف زدہ رہتا ہے، لیکن اس نے جو دوسرا راستہ اختیار کیا ہوا ہے وہ پاکستان کے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مسلسل مداخلت کا ہے، جس کا اظہار پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے دہلی میں ہارٹ آف ایشیا کی سائڈ لائن پر بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے دوران کیا تھا۔ جب تک بھارت ''را‘‘ کے ذریعے پاکستان کے خلاف مذموم کارروائیاں بند نہیں کرتا، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں خوشگوار اثرات رونما نہیں ہوسکتے ۔ مزید برآں بھارت افغانستان 
کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے، جب کبھی افغانستان کے اندر طالبان کی جانب سے حملہ ہوتا ہے تو افغان حکومت اور بھارت دونوں پاکستان پر اس کا الزام لگانے سے نہیں چوکتے حالانکہ طالبان اپنے ملک میں گزشتہ چودہ سال سے امریکہ اور نیٹو کی فوجوں کے خلاف لڑرہے ہیں اور لڑتے رہیں گے، ان کو میز پر لانے کی ذمہ داری اکیلے پاکستان پر عائد نہیں ہوتی بلکہ جو چار ممالک افغانستان میں طالبان کو میز پر لانے کی کوشش کررہے ہیں وہ بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے کیونکہ جب تک افغانستان میں غیر ملکی فوجیں موجود رہیں گی، طالبان ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ یہ ان کا واضح موقف ہے۔ اس سے وہ تمام لوگ واقف ہیں جو 
عرصہ دراز سے افغانستان کے معاملات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ محض یہ کہنا کہ پاکستان کی جانب سے طالبان افغانستان کے اندر کارروائیاں کر رہے ہیں‘ ایک پرانا اور بوسیدہ الزام ہے، ضرب عضب کے بعد طالبان کا کوئی گروپ پاکستان میں موجود نہیں ہے، ان کا صفایا ہوچکا ہے، ساری دنیا بشمول امریکہ اس حقیقت کو تسلیم کررہا ہے ‘مزید برآں چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری کے ضمن میں بھی بھارت کی سوچ سے اس خطے کے تمام ممالک بشمول چین اچھی طرح واقف ہیں۔ بھارت کی سیاسی قیادت نے کئی بار یہ کہا ہے کہ وہ پاکستان اور چین کے درمیان اس اہم منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دے گا، چنانچہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کھلی دشمنی دونوں ملکوں کے مابین دوری کا باعث بن رہی ہے۔ جب تک پاکستان کے معاملات میں بھارت کی مداخلت ختم نہیں ہوگی، ان دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت یا پھر دوستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، اسی قسم کے خیالات کا اظہار سیکرٹری خارجہ جناب اعزاز احمد چودھری نے کہا ہے۔ انہوںنے بڑی وضاحت سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے، The uninterruptible dialogue process would require 
commitment from both sides, besides a sustained and structured engagement is imperative for resolving the outstanding dispute between the two countries including Jammu and Kashmir dispute. While Jammu and Kashmir dispute remained the core issue. پاکستان کے اس موقف سے بھارت کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ نیز اس کو کشمیر سے متعلق اٹوٹ انگ کا لفظ بھی استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے، کیونکہ اٹوٹ انگ کا ستعمال مقبوضہ کشمیر کے عوام میں اشتعال انگیزی کا سبب بنتا ہے۔ کسی بھی عنوان سے کشمیر بھارت کاحصہ نہیں رہا ہے۔ یہاں تک کہ ہری سنگھ نے بھی اپنے ''خط ‘‘میں بڑی وضاحت سے یہ لکھا ہے کہ جب تک کشمیری عوام کی اس سلسلے میں رائے معلوم نہیں کی جاتی، اس وقت تک کشمیر کسی بھی ملک کا حصہ نہیں بن سکتا، دراصل بھارت کی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی حاکمیت قائم کرسکتا ہے، مقبوضہ کشمیر کے عوام نے پہلے بھی بھارتی تسلط اور ظلم کے خلاف بے مثال جرأت مندانہ جدوجہد کی ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوج کے علاوہ بارڈر سکیورٹی فورس اور پیرا ملٹری فورس کشمیری عوام کی جدوجہد کو نہ تو روک سکتی ہے اور نہ ہی ختم کر سکتی ہے، بھارت کشمیری عوام کی اس لازوال سوچ کا ادراک رکھتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں