گزشتہ کئی کالموں میں میں نے یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ لکھی تھی کہ بلوچستان میں ایک عام آدمی کو غربت اور مفلس اور محروم رکھنے میں خود بلوچوں کی سیاسی قیادت اور ان کے بعض سردار شامل ہیں۔میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ بلوچستان میںسیاسی قیادت اور نوکرشاہی کی ملی بھگت سے ریکارڈ کرپشن کاارتکاب ہوتا ہے، لیکن نہ تو ہمارے کالموں پر بلوچستان کی قیادت‘ نیب یا پھر دیگر اداروں نے توجہ دی تھی اور نہ ہی اس صورتحال کی اصلاح کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا گیا۔ لیکن جب مشتاق رئیسانی کے گھر سے اربوں روپے نیب کے ذریعے پکڑے گئے تو پھر اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ بلوچستان میں غربت اور محرومی کا تعلق نہ تو وفاق سے ہے اور نہ پنجاب سے‘ جسے یہ بد نام کرنے کے لئے باقاعدہ ایک ایجنڈے کے تحت کام کررہے تھے، لیکن اب بلوچستان کے ایک عام آدمی کو خصوصیت کے ساتھ جس کے پاس مناسب تعلیم ہے اور سماجی وسیاسی حالات کا شعور رکھتا ہے، اسے اب احساس ہوجانا چاہئے کہ بلوچستان کے عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھنے میںبلوچستان کی سیاسی قیادت ، بیوروکریٹس اور سردار شامل ہیں، جنہوں نے ترقیاتی فنڈز کو اپنے لئے، اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے استعمال کئے ہیں، مزید برآں بیرونی طاقتوں کے اشارے پر وہ جوان اپنے ہی صوبے اور ملک کے خلاف لڑرہے ہیں، اب انہیں بھی احساس ہوچکا ہوگا کہ ان کی ''جدوجہد‘‘ لا حاصل ہے، کیونکہ جس ''نظام‘‘ کے خلاف انہوںنے ہتھیار اٹھارکھے ہیں وہ جابرانہ استحصالی نظام خود ان کے اپنے لوگوں نے تخلیق کیا ہے اور انہیں بنیادی سہولتوں سے محروم کررکھا ہے۔اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ مشتاق رئیسانی نے بہت سے پردہ نشینوں کے نام بتائے ہیں، جن میں وزراء بیوروکریٹس اور سیاسی رہنما شامل ہیں، اب جلد ان پردہ نشینوں کے نام عوام کے سامنے آجائیں گے، یقینا ان سب عناصر کے خلاف سخت ترین تادیبی کارروائی ہونی چاہئے، بلکہ ان کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کے علاوہ قانون اور انصاف کی روشنی میں طویل عرصے تک کے لئے انہیں پس دیوار زنداں رکھا جائے تاکہ بلوچستان کے دیگر بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کو عبرت حاصل ہوسکے۔ دراصل افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں عمومی طورپر اور صوبوں میں خصوصیت کے ساتھ کرپشن کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں ہوسکی ہے، بلکہ نیب سمیت تمام اداروں نے بے لگام ہونے والی کرپشن سے سمجھوتہ کرلیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ کرپشن پاکستان کی سیاست اور معاشرت کا حصہ بن چکی ہے، دوسری طرف پاکستان کی پوری دنیا میں کرپشن کے پس منظر میں نہ صرف بد نامی ہوئی ہے بلکہ امداد دینے والے ملکوں کا پاکستان پر بہت حد تک اعتماد ختم ہوچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان ایک ایسے دوراہے پر آن کھڑا ہوا ہے جہاں ارباب اختیار نے اگر آہنی ہاتھوں سے کرپٹ عناصر کے خلاف موثر کارروائیاں نہیں کیں تو پھر پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے استحکام نا ممکن ہوجائے گا، بلکہ اس کی سا لمیت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بلوچستان کے علاوہ سندھ کی حکومت میں بھی کم وبیش کرپشن کی یہی صورتحال ہے،اس صوبے میں کرپشن سے متعلق حقائق کے ساتھ خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں، لیکن یہاں پر بھی کسی قسم کی کارروائی نہیں ہوسکی ہے، ماسوائے ڈاکٹر عاصم حسین کے جنہوں نے مبینہ طورپر آصف علی زرداری کے کہنے پر ریکارڈ کرپشن کا ارتکاب کیا ہے، اسی طرح کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کرپشن ہوئی ہے اور اس کا سرغنہ منظور کاکا فرارہوگیا ہے۔ فشریز میںڈاکٹر مورائی نے جو کرپشن کی ہے اب یہ شخص گرفتار ہونے کے بعد آہستہ آہستہ اپنے کئے ہوئے جرائم سے پردہ اٹھا رہا ہے۔ یہ شخص ناجائز دولت سمیٹ رہا تھا، بلکہ بلوچ لبریشن آرمی کو بھی اس ناجائز آمدنی سے مالی امداد فراہم کررہا تھا، اسی طرح سابق وزیر اطلاعات نے بھی کرپشن اور بد عنوانیوں کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ بھی فرار ہوچکاہے، اس کا ایک اور قابل مذمت قصور یہ بھی ہے کہ اس نے ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ دولت سے بعض صحافیوں کو بھی نوازا ہے جس کی وجہ سے سندھ کی صحافت بد نام ہوئی ہے، چنانچہ اب فیصلے کا وقت آن پہنچا ہے، کرپشن کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی کوششوں کی حمایت کرنی چاہئے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کا ایک مخصوص کرپٹ ٹولہ موجودہ حکومت اور وزیر اعظم کی مبینہ کرپشن کی حمایت کررہا ہے۔ فرسودہ ، بے بنیاد اور کمزور دلائل اور منطقوں کے ذریعہ ان کی مبینہ کرپشن پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، اور عوام کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ یہ سب دودھ کے دھلے ہوئے ہیں، انہوںنے کسی قسم کے کرپشن کا ارتکاب نہیںکیا ہے، اس کے علاوہ ناداں حماتیوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں نہ جائیں اور نہ ہی وہاں جاکر اپنی دولت سے متعلق وضاحت پیش کریں، تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ پارلیمنٹ کس کام کی ہے؟ اگر پارلیمنٹ ہی مسلم لیگ ن کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تو پھر آئین کے تحت پارلیمنٹ اور موجودہ حکومت کی کوئی حقیقت یا وقعت نہیں ہے، اداروں کو غیر موثر اور بے توقیر بنانے میں خود سیاست دانوں کا کردار نمایاں ہے جو اپنی کرپشن کو چھپانے اور بچانے کے لئے کسی حد تک جاسکتے ہیں یہاں تک کہ پاکستان کی سا لمیت کے خلاف بھی کام کرنے سے نہیں چوکتے ، پاکستان کے حوالے سے یہ بہت بڑا المیہ ہے، جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے، چنانچہ اب بلوچستان کے سیاست دان اور سیاسی پارٹیوں کے کارکن کس منہ سے یہ کہہ سکیں گے کہ بلوچستان کے عوام محرومی کا شکار ہیں؟ وفاق نے محروم کیا ہے یا پھر خود ان کے اپنے لوگوں نے؟ ذرا سوچئے؟