بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کی حکومت کو پاکستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ چین بھارت کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے خلاف نہیں‘ البتہ اسے بعض تحفظات ہیں۔ پاکستان نے دو ماہ قبل اس گروپ میں شامل ہونے کے لئے درخواست دے دی تھی‘ جبکہ اس گروپ کے 48 ممبران سے رابطہ کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکہ بھارت کو اس گروپ میں شامل کرانے کے لئے تگ دو کر رہا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ واشنگٹن میں اپنی حالیہ ملاقات میں یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکہ بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل کرکے اس ادارے کو زیادہ مضبوط بنانا چاہتا ہے، نیز ایٹمی ہتھیاروںکے پھیلائو کو بھی روکنا چاہتا ہے۔ شاید بارک اوباما کو اس حقیقت کا علم نہیں کہ بھارت نے ابھی تک این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے ہیں‘ لیکن امریکہ ہر قیمت پر بھارت کو سپلائرز گروپ کا ممبر بنانا چاہتا ہے۔ چین اس کی اصولی بنیاد پر مخالفت کر رہا ہے، اور اسے کرنی بھی چاہئے، کیونکہ بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر چین اور پاکستان کی مشترکہ ترقی کو روکنا چاہتا ہے، نیز وہ چین کے جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں سیاسی و معاشی اثرات کو بھی کم کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔ اگر بھارت سپلائرز گروپ کا رکن بن گیا تو وہ امریکہ کی مدد سے اپنے نیوکلیئر اثاثوں میں بے پناہ اضافہ کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین بھارت کی اس گروپ میں شمولیت کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس ضمن میں حیرت کی بات یہ ہے کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا قیام بھارت کے 1974ء میں ایٹمی دھماکے بعد عمل میں آیا تھا۔ اس کا گروہ کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ بھارت کو کلی طور پر ایٹمی طاقت نہیں بننے دیا جائے گا۔ ابتدا میں اس گروپ کے چھ سات سے زائد ممبر نہیں تھے، لیکن جیسے جیسے ایٹمی ہتھیاروں میں ترقی پذیر ممالک کی دلچسپی میں اضافہ ہونے لگا‘ اس کے ممبران کی تعداد بڑھتی گئی تاکہ اس مہلک ہتھیار کی تیاری میں زیادہ ممالک شامل نہ ہو سکیں۔ اگرچہ پاکستان کو اس گروپ نے ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لئے خفیہ اور ظاہری کئی کوششیں کیں‘ لیکن ان تمام رکاوٹوں کے باوجود پاکستان ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کا سہرا ڈاکٹر قدیر خان اور ان کی ٹیم کے علاوہ ضیاالحق اور غلام اسحق کو جاتا ہے، جنہوں نے ایٹم بم کی تیاری میں تمام وسائل ڈاکٹر قدیر کے سپرد کر دیئے تھے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اگر پاکستان ایٹم بم نہ بناتا تو بھارت کبھی کا پاکستان کو تباہ برباد کر چکا ہوتا۔ اس وقت بھی بھارت کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندر غداروں کی بھی کمی نہیں‘ جو ایک بیرونی ایجنڈے کے تحت پاکستان کو معاشی و معاشرتی طور پر ناتواں اور کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اس ایجنڈے کا ہی حصہ ہے۔
اگر بھارت نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ممبر بنا دیا جاتا ہے‘ تو اسی اصول کے تحت پاکستان کو بھی اس کا ممبر بنایا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں جہاں تک بھارتی وزیر خارجہ کا یہ کہنا ہے کہ انہیں پاکستان کی اس گروپ میں شمولیت پر اعتراض نہیں ہے، تو دراصل یہ ایک طرح کا دھوکہ ہے۔ سشما سوراج اس طرح پاکستان کے ساتھ بظاہر نرمی کا مظاہرہ کرکے بھارت کے لئے چین کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنا چاہتی ہیں جو تقریباً ناممکن ہے۔ کیا چین بھارت اور امریکہ کے درمیان حال ہی میں ہونے والے دفاعی معاہدے کو فراموش کر دے گا؟ جو اصل میں چین اور پاکستان کے خلاف ایک حصار بندی ہے۔ اسی طرح بھارت اس خطے کے بعض ممالک کے ساتھ مل کر پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر کو بھی ناکام بنانا چاہتا ہے۔ کچھ پاکستانی سیاست دان بھارت کے اشارے اور ایما پر اس عظیم منصوبے کے خلاف بے جا اور غیر ضروری تنقید کرکے اس سے متعلق ابہام پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارا یہ پڑوسی اس منصوبے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے سرمایہ بھی لگا رہا ہے۔ چین کو اس حقیقت کا ادراک و احساس ہے لیکن وہ ہر قیمت پر اس عظیم اقتصادی منصوبے کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ افواج پاکستان نے اس منصوبے کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اس وقت پندرہ ہزار فوجی جوان اس کی حفاظت پر مامور ہیں اور چوکس بھی۔
سشما سوراج کچھ بھی کہیں‘ لیکن چین کسی بھی قیمت پر بھارت کی سپلائرز گروپ میں
شمولیت کی حمایت نہیں کرے گا۔ یہ اس کا اصولی موقف ہے۔ ہاں اگر پاکستان اس کا رکن بن جاتا ہے تو چین کو اس صورت میں بھارت کے اس کا رکن بننے میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ایک اور مسئلہ جو جنوبی ایشیا کے ممالک کو درپیش ہے‘ وہ اس خطے میں امریکہ کا یکطرفہ طور پر بھارت کو بوازنے کا بڑھتا ہوا رجحان ہے، جو چین اور پاکستان‘ دونوں کے لئے بیک وقت مسائل پیدا کر رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں طورخم سرحد پر افغانستان کی طرف سے تسلسل کے ساتھ جو فائرنگ کی گئی‘ اس کا مقصد پاکستان کی سرحد کے اندر گیٹ کی تعمیر کو رکوانا تھا‘ جبکہ را کے تربیت یافتہ ایجنٹ پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے رہیں۔ افغانستان کی حکومت نے طورخم کی سرحد پر بھی سب کچھ امریکہ اور بھارت کی ملی بھگت سے کیا تاکہ پاکستان کی فوج کو مغربی سرحدوں پر مسلسل Engage رکھا جائے، پاکستان کی عسکری قیادت افغانستان‘ بھارت اور امریکہ کی ان چالوں سے بخوبی واقف ہے‘ اور اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے پوری طرح سے تیار ہے۔ امریکہ کی جنوبی ایشیا میں‘ خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے خلاف‘ پالیسیوں کی وجہ سے قیام امن کے تمام امکانات ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔