کشمیری عوام اور بھارتی سامراج

گزشتہ چند روز سے مقبوضہ کشمیر میں جنوب سے لے کر شمال تک بھارتی فوج کے ساتھ ساتھ پیرا ملٹری فورس، حریت پسند کمانڈر برہان وانی کے شہادت پر ہونے والے مظاہروں کو دبانے کے لئے بہیمانہ طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ اب تک بھارتی فوج کے تشدد کی وجہ سے کم از ک۔ تیس مظاہرین شہید ہوچکے ہیں جبکہ ایک بہت بڑی تعداد زخمی بھی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مظاہرے رک نہیں پارہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے وادی میں کرفیونافذ کردیا ہے، لیکن اس کے باوجود کشمیری عوام خصوصیت کے ساتھ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کرفیو کی پروا نہ کرتے ہوئے بھارتی فوج کے ظلم کے خلاف صف آرا ہوکر مظاہرے کر رہی ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت پر احتجاج کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہیں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ان بہیمانہ ظلم کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرنی چاہیے تھی۔ پاکستان کہ وزارت خارجہ نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی استبدادی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے بڑی وضاحت سے کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا چاہیے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیر کا پائیدار حل صرف اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے وابستہ و پیوستہ ہے، جس میں بھارت کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کے ذریعہ عوام کی رائے معلوم کی جائے اور پھر ان کی اجتماعی مرضی کے مطابق اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مقبوضہ کشمیر میں اسصتواب رائے نہیں کرائے گا۔ وہ طاقت اور تشدد کی راہ پرگامزن ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں پانچ لاکھ سے بھی زیادہ بھارتی فوج موجود ہے، جو آئے دن کشمیری عوام پر ظلم وجور کے پہاڑ توڑتی رہتی ہے، لیکن اتنی بڑی بھارتی فوج کی موجودگی کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں امن قائم نہیں ہوسکا اور نہ ہی کشمیری عوام اپنے حق خود ارادیت کے مطالبے سے دست بردار ہوئے ہیں۔ ان کے جذبہ آزادی میں نہ تو کسی قسم کی کمی آئی ہے اور نہ ہی ان کی جدوجہد میں۔ ہر چند کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ایک مخلوط حکومت قائم ہے، جس میں بی جے پی بھی شامل ہے لیکن اس مخلوط حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیںدیا جس کی بنا پر یہ کہا جائے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام سماجی، معاشی وسیاسی حالات سے مطمئن ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر پلوامہ، مورن، کولی گام اور سری نگر میں بھارتی فوج نہتے مظاہرین پر کیوں گولیاں چلارہی ہے؟ کشمیر عوام تو برہان وانی کی شہادت پر اپنے غم وغصے کا اظہار کر رہے تھے، لیکن انتہائی پر امن تھے۔
مقبوضہ کشمیر میںہونے والے مظاہروں پر بھارتی حکومت کا یہ روایتی تبصرہ کہ ان کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے، ایک لغو اور بے بنیاد بات ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین کا احتجاج بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کے خلاف ایک موثر آواز سنائی دے رہی ہے، جو پہلے بھی اور اب بھی عالمی سطح پر سنی جارہی ہے۔ محض پاکستان پر ان مظاہروں کی پشت پناہی کرنے سے متعلق بھارت کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات مقبوضہ کشمیر میں زمینی حقائق کو نہیں بدل سکتے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مندرجات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی حکومت نے ان مظاہروں کو دبانے کے لئے مزید دو ہزار تازہ دم دستوں کو مقبوضہ کشمیر میں بھیج دیا ہے، لیکن بھارت کی یہ حکمت عملی بھی ناکام ثابت ہوگی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کیا ہواہے حالانکہ تمام تر بین الاقوامی قوانین کے مطابق 
مقبوضہ کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے اور اب بھی چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے علاوہ خود کشمیر کے سابق حاکم ہری سنگھ نے اپنے خط میں بڑی وضاحت سے یہ لکھا کہ کشمیری عوام کی رائے معلوم کرنے کے بعد ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ممکن ہوسکے گا۔ اس طرح ہر لحاظ سے بھارت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کے جذبات اور احساسات کا پاس رکھتے ہوئے سب سے پہلے وہاں سے اپنی فوجیں ہٹائے تاکہ امن قائم ہو سکے۔ یہ دیرینہ مطالبہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے علاوہ بین الاقوامی کمیونٹی کا بھی ہے۔ دراصل بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو فوجی چھائونی میں تبدیل کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وقفہ وقفہ سے مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنے آئینی حق اور آزادی کی خاطر مظاہرے کرتے رہتے ہیں، جنہیں دبانے کے لئے بھارتی فوج گولیوں کا استعمال کرتی ہے۔ اب تک ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری اپنی آزادی کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ ان کے جذبہ آزادی کو دیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ قربانیوں کا یہ سلسلہ رکنے والا نہیںہے، بلکہ جاری رہے گا۔ ویسے بھی جب ظلم بڑھتا ہے تو اس کے ساتھ جذبہ حریت بھی بڑھتا ہے 
اور تقویت پاتا ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت اور فوج کے خلاف مظاہروں سے توجہ ہٹانے کے لئے بھارت کی حکومت نے کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ بھارتی فوج کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں دو پاکستانی شہری شہید ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے فوجی جوانوں نے اس کا بھر پور جواب دیاہے، جس کی وجہ سے اس وقت کنٹرول لائن پر خاموشی چھا گئی ہے؛ تاہم پاکستان کی حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم کو بے نقاب کرنے کے لئے عالمی سطح پر اپنی سفارت کاری کو تیز کردینا چاہیے، خصوصیت کے ساتھ اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر نیویارک میں تاکہ وہاں مختلف ممالک کے سفارت کاروں کو یہ معلوم ہوسکے کہ بھارتی وزیراعظم مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے اس طرح ہولی کھیل رہا ہے، جس طرح اس نے گجرات میں 2002ء میں نہتے مسلمانوں کے خلاف یہ بھیانک کھیل کھیلا تھا۔ دراصل نریندر مودی ایک نسل پرست انتہا پسند شخص ہے جس کے چہرے مہرے سے مسلمان دشمنی ٹپکتی ہے۔ اس پس منظر میں سویڈن کے ماہرین نے بھارت کو نسل پرست ہونے کے اعتبار سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ اس سلسلے میںاسی ممالک کا سروے کیا گیا تھا، جہاں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہیں۔ بھارت کا ان اسی ممالک میں پہلا نمبر ہے، جہاں نسل پرستی ان کی سیاست اور ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں