بھارتی قیادت کا رویہ

جب سے امریکہ نے کھل کر بھارت نوازی کا مظاہرہ شروع کیا ہے، لگتا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ بھارت اس خطے کا سب سے زیادہ طاقتور ملک بن گیا ہے، اور وہ اپنی سوچ اور خیالات دوسروں پر مسلط کرنے کا حق رکھتا ہے۔ بھارت کی اس سامراجی سوچ کا اظہار چند روز قبل سارک تنظیم کے وزرائے داخلہ کے اجلاس میں دیکھنے میں بھی آیا۔ سارک تنظیم کے اس اجلاس میں بنگلہ دیش کے سوا رکن سبھی ممالک نے شرکت کی تھی۔ بھارت کی نمائندگی اس کے وزیر داخلہ جناب راج ناتھ سنگھ کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اچھے اور مثبت کلمات ادا کرنے کے بجائے پاکستان پر الزام لگایا (روایتی الزام) کہ وہ دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ ان کے یہ جملے پاکستان کے وزیر داخلہ اور ان کی ٹیم کو انتہائی ناگوار گزرے؛ چنانچہ چودھری نثار علی خان نے اپنی تقریر میں راج ناتھ سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی وضاحت سے کہا کہ جدوجہدِ آزادی اور اپنے آئینی حقوق کے حصول کے لئے کی جانے والی کوشش کسی بھی لحاظ سے دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتی، اس قسم کی تمام تحریکوں کو اقوام متحدہ کے علاوہ تمام مہذب قوموں نے بھی قبول کیا ہے اور اس کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے بھارتی وزیر داخلہ پر واضح کیا کہ آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے دہشت گرد نہیں ہیں، دہشت گردوں اور حریت پسندوں کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہے‘ ان میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ 
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کئی دہائیوں سے کشمیری عوام پر جو ظلم ڈھا رہی ہے‘ وہ اب ساری دنیا کے سامنے عیاں ہوتے جا رہے ہیں اور انسانیت کا احترام کرنے والے تمام افراد اور قومیں بھارت کی اس بربریت اور بے جا ظلم و تشدد کی بھرپور الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنی آزادی‘ اپنی ثقافت کے فروغ اور اپنے مذہب کی حفاظت کے لئے بھارت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس تحریک میں حصہ لینے والے تمام نوجوان بغیر کسی بیرونی مدد اور تعاون کے بھارت کی قابض فوج کا نہایت دلیری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرارداوں کی روشنی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ یہ کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا ہے۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ ابھی ہونا ہے‘ جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے سے منظور کی گئی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے‘ جو یہ کہتی ہیں کہ کشمیری عوام سے رائے طلب کی جائے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لئے بات کرے۔ بڑھتے ہوئے بھارتی استبداد کا ہی نتیجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام بھارت کی جارح فوج کے خلاف سینہ سپر ہو کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور ہر جگہ اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ راج ناتھ سنگھ کی یہ سنگین غلط فہمی ہے کہ وہ کشمیری نوجوانوں کی جانب سے برپا کی گئی اس تحریک کو دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان ہر سطح پر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم و بربریت کے خلاف اپنی آواز بلند کرتا رہے گا۔ بھارت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ پاکستان کشمیر کے تنازع پر ایک فریق ہے اور بہ حیثیت ایک فریق وہ اپنا آئینی کردار ادا کرتا رہے گا، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھی پاکستان کے اس رول کو تسلیم کیا ہے۔ 
دراصل راج ناتھ سنگھ‘ جیسا کہ کامران خان نے دنیا نیوز میں اپنے ایک تبصرے میں کہا ہے‘ یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ دہلی میں
براجمان ہیں اور کابینہ کے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہیں‘ انہیں یہ نہیں معلوم کہ وہ پاکستان میں سارک تنظیم کے شرکا سے خطاب کر رہے ہیں‘ جہاں تنظیم کے تسلیم شدہ چارٹر کے مطابق سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔ انہوں نے سارک تنظیم کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا نام لیا اور اس کو دہشت گردی سے ملا دیا۔ دراصل راج ناتھ انتہائی غیر سفارتی زبان استعمال کر رہے تھے۔ ویسی ہی زبان جیسی ان کے وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان کے بارے استعمال کرتے ہیں۔ نیز ایسی ہی زبان عالمی سامراج بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرکے اسے بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کے خلاف اس پروپیگنڈے میں بھارت کا میڈیا سبقت لے گیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے تقریباً ہر دور میں پاکستان کو بدنام کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے میں انتہائی گھنائونا کردار ادا کیا‘ اور اب بھی کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک بھارت اور پاکستان کے مابین خوشگوار تعلقات استوار نہیں ہو سکے۔ راج ناتھ سنگھ نے بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں دوری پیدا کرنے کے سلسلے میں وہی کردار ادا کیا
ہے‘ جو بھارتی میڈیا اور وہاں کی انتہا پسند تنظیمیں کرتی رہتی ہیں؛ تاہم راج ناتھ سنگھ کی سارک تنظیم کے وزرائے داخلہ کے اجلاس میں شرکت سے قبل یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ بھارت سے خیر سگالی کا پیغام لے کر آئیں گے اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے عوام اور پاکستان کی فوج کی کارکردگی کی تعریف کریں گے، لیکن انہوں نے اپنے خطاب میں اپنے دل و دماغ میں پاکستان کے خلاف چھپا ہوا زہر اگلا اور نفرت کا اظہار کرکے ان امیدوں پر پانی پھیر دیا‘ جو ان سے وابستہ کی گئی تھیں۔ پاکستان کے خلاف بھارتی قیادت کا رویہ جنوبی ایشیا میں امن کے تمام امکانات کو رد کر رہا ہے اور سامراج کے ساتھ مل کر اس خطے میں جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر بھارت کا پاکستان کے خلاف یہی رویہ رہا تو پھر اس خطے میں امن کے تمام امکانات معدوم ہو جائیں گے، جبکہ دوسری طرف انتہا پسندی اور جنگی جنون کو فروغ ملے گا، بلکہ مل رہا ہے۔ کشمیر کی تین ہزار سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں کے پُرامن باشندے کبھی کسی کے ماتحت نہیں رہے ہیں۔ 1931ء سے لے کر اب تک برسر پیکار ہیں‘ پہلے ڈوگرہ راج کے خلاف اور اب بھارت کی قابض فوج کے خلاف۔ انہوں نے ہر طرح کی قربانیاں دے کر جذبہء آزادی کی شمع کو ہمیشہ فروزاں رکھا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں