سانحۂ گڈانی، حقیقت کیا ہے؟

گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ میں پرانے جہازکو جو آگ لگی تھی اسے بجھانے میں کئی دن لگ گئے۔ یقیناً یہ صورت حال قابل افسوس ہے کہ ایک نیوکلیئر پاور ملک کے پاس آگ بجھانے کے لئے ضروری سازوسامان نہیں ہے۔ حکومت کے لئے بھی گڈانی کا المناک واقعہ قابل شرم ہے، جو آئے دن عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہتی ہے کہ ملک زبردست ترقی کر رہا ہے۔ اس وقت تک کم از کم 40 محنت کش جو جہاز پرکام کر رہے تھے، ان کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 100 سے زیادہ لاپتہ ہیں۔
ایک زمانے میں گڈانی پرانے جہازوںکو توڑنے کا مرکز بن چکا تھا، خصوصیت کے ساتھ مرحوم جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں شپ بریکنگ انڈسٹری کا نام پوری دنیا میں جنوبی کوریا کے بعد سرفہرست تھا، لیکن بعد میں نااہل بیوروکریسی بالخصوص بلوچستان کی صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی، جس کی وجہ سے یہ انڈسٹری اپنی موت آپ مرگئی۔ دو تین برسوں سے نجی شعبے نے از خود فیصلہ کرکے اس صنعت کو دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ کیا جوکامیاب رہا، لیکن گڈانی میں ہونے والے حادثے نے ایک بار پھر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی آنکھیں کھول دی ہیں اور روایتی انداز میں اس واقعہ سے متعلق تحقیقات کا حکم صادر کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی تحقیقات کا نہ تو ماضی میں کوئی نتیجہ نکلا اور نہ اب اس کی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔
گڈانی میں مجھے ایک شخص نے بتایا کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ ایک سازش ہے، جس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہو سکتا ہے، وہ اس لئے کہ جو جہاز ٹوٹنے کے لئے خریدا جاتا ہے، اس کا باقاعدہ ماہرین (Marines Engineers) کے ذریعے سروے کیا جاتا ہے۔ اس سروے کی رپورٹ کے بعد ہی سرمایہ دار جہاز خریدنے پر راضی ہوتا ہے۔ جس جہاز میں آگ لگی اس کو بھی مکمل سروے کے بعد خریدا گیا تھا۔ پرانے جہاز جن کو توڑنے کے لئے خریدا جاتاہے، ان میں بجلی کا نظام ختم کردیا جاتا ہے، بلکہ جہاز کو توڑنے کے لئے جو بجلی استعمال کی جاتی ہے، اس کا تعلق جہازکے باہر سے ہوتا ہے، اس لئے یہ کہنا کہ جہاز کو بجلی کے شارٹ سرکٹ سے آگ لگی تھی، ایک خام خیالی اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ دراصل بلوچستان میں شرپسند عناصر بھارت کے مالی مدد سے ہر وہ کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو نقصان پہنچے۔ چونکہ گڈانی ماضی میں شپ بریکنگ انڈسٹری کا مرکز رہا ہے اور اب دوبارہ نجی شعبے کی معاونت اور سرمایہ کاری سے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس لیے وہ عناصر جو پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط دیکھنا نہیں چاہتے، انہوںنے ہی یہ بھیانک کام انجام دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو میرے 'انکشاف‘ سے اتفاق نہ ہو، لیکن بہت جلد حقائق سامنے آجائیں گے۔ 
دراصل پاکستان کے عوام کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان پر بھارت نے اسرائیل اور امریکہ کی مدد سے باقاعدہ پراکسی جنگ مسلط کی ہوئی ہے۔ اسلام آباد میں مقیم بھارتی''سفارت کار‘‘ پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے میں ملوث رہے ہیں، ان کے ڈانڈے کل بھوشن یادیو کی پاکستان دشمن سرگرمیوں سے وابستہ تھے؛ چنانچہ جب پاکستان کی خفیہ ایجنسی کو ان حقائق کا علم ہوا تو ہماری وزارت خارجہ نے انہیں پاکستان سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس پر فوری عمل درآمد ہو رہا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ بدستور موجود ہے کہ ہماری حکومت بھارت کی پاکستان کے اندر دہشت گردی کرانے کی کھلے بندوں مذمت کیوں نہیں کرتی، یہاں تک کہ وزیر اعظم نے یو این او میں اپنی تقریر میں پاکستان میں بھارت کی مداخلت کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی انہوںنے بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو سے متعلق کوئی بات کی۔ موجودہ حکومت کی بھارت نواز پالیسی کی وجہ سے بھارت کا مسلمان دشمن اور پاکستان دشمن وزیراعظم نریندر مودی کو حوصلہ مل رہا ہے اور وہ پاکستان میں مسلسل گڑبڑ کرا رہا ہے۔ بیرونی ممالک میں متعین پاکستانی سفارت کاروں کی اکثریت نااہل ہے اور اپنے مفادات کے لئے کام کر رہی ہے۔ ان میں بہت سے سیاسی بنیادوں پر تعینات کئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ پاکستان کے لئے تن من دھن سے کام کریں گے، ایک موہوم امید ہے۔ اگر موجودہ حکومت کی سفارت کاری حالات کے تقاضوں کے تحت مضبوط اور جاندار ہوتی تو اب تک عالمی سطح پر بھارت کا پاکستان کے خلاف پراکسی وار کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوچکا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ الٹا پاکستان پر یہ الزام دھرا جا رہا ہے کہ وہ پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔
افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے بدنام کرنے میں بعض پاکستانی بھی پیش پیش ہیں، جن کو باقاعدہ بھارت اور امریکہ کی حمایت اور مالی مدد مل رہی ہے۔ ڈان کے رپورٹر سرل المیڈا کو پاکستان کی سکیورٹی سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس کی خبر کس نے دی تھی؟ سابق وزیراطلاعات پرویز رشید سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہی شخص ذمہ دار تھا، اس لئے اس کو وزارت سے فارغ کردیا ہے؛ میرے خیال کے مطابق اس Security break کے سلسلے میںاصل چہرے کو سامنے لانا چاہیے۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ وزیرداخلہ جناب چودھری نثار علی خان نے جسٹس(ر) عامر رضا کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس میں آئی ایس آئی ، ایم آئی اور آئی بی کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ امید ہے کہ کمیشن بہت جلد حقائق کو عوام کے سامنے لے آئے گا اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کسی رو رعایت سے کام نہیں لیا جائے گا۔ اگر خدا نخواستہ اس ضمن میں سیاسی مصلحتوں کے تحت مجرموں کو سامنے نہ لایا گیا تو پھر بھارت کو پاکستان میں تخریب کاری کا حوصلہ ملے گا اور وہ احساس اداروں کے اجلاس سے متعلق بھی خبریں حاصل کرسکے گا۔ پاکستان کا المیہ یہ بھی ہے کہ حکومت کے ''بڑے لوگوں‘‘ کو سنگین جرائم کے باوجود معاف کر دیا جاتا جبکہ چھوٹے درجے کے افراد کو پکڑکر ان کا کفارہ ادا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے کو بند ہونا چاہیے اور ایسے تمام افراد کے خلاف بے رحم کارروائی ہونی چاہیے جو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور پاکستان کو اندر سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بقول مرزا غالبؔ ؎
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں