وفاقی کابینہ کے وزراء اور ارکان پارلیمنٹ بشمول سینیٹرز کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔پارلیمنٹیرینز نے اس اضافے کو ''بہ خوشی‘‘ قبول کرلیا ہے،اس اضافے سے خزانے کو 40کروڑ روپے کا خسارہ ہوگا، یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہاہے کہ حکمرانوں نے 2018ء کا انتخاب لڑنا ہے اور جیتنا بھی ہے،جس کے لئے ارکان اسمبلی اور سینیٹ کی وفاداریاں درکار ہیں۔ پاکستان میں سیاسی وفاداریاں اکثر فروخت ہوتی رہتی ہیں اور ان وفاداریوں کو خریدنے کے بعد ہر حکومت ''نئی قوت‘‘ کے ساتھ اپنا آئندہ کا لائحہ عمل تشکیل دے کر انتخابی میدان میں اترتی ہے۔ حکمران چونکہ پاناما لیکس میں پھنس چکے ہیں اور ہر طریقے سے اس الزام سے باعزت طور پر نکلنے کی کوشش بھی کررہے ہیں،جس کے لئے انہیں اسمبلی کے اندر اور باہر ایسے افراد کی ضرورت ہے جو سچ کو جھوٹ میں بدلنے کا غیر معمولی ہنر رکھتے ہوں اور ان کے مبینہ کرپشن اور کرتوتوں کو چھپانے کے لئے ہراول دستے کا فرض انجام دینے میں کسی قسم کی کوتاہی کے مرتکب نہ ہوں۔ حکمران یہ سمجھ رہے ہیںکہ ارکان پارلیمنٹ اور سینیٹ کے ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کے بعد ان کے مسندِ اقتدار کو نہ تو کسی قسم کا خطرہ درپیش ہوسکے گا، اور نہ ہی اسمبلی کے آئندہ اجلاس کے دوران ''گو نواز گو‘‘ کے نعرے بلند ہو سکیں گے۔
ارکان پارلیمنٹ اور سینیٹ کی تنخواہوں اور دیگر ضروریات میں اضافہ کے بعد عوام کا یہ سوال اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ان افراد نے گزشتہ تین سالوں میں ایسا کون سے کارنامے سر انجام دیئے ہیں جن کی بنا پر ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے؟ کیا ان افراد نے اپنے انتخابی حلقوں میں جاکر عوام کی خدمت کی ہے یا ان کے حالات معلوم کئے ہیں؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان ارکان پارلیمنٹ نے انتخابات میں ''کامیابی‘‘ حاصل کرنے کے بعد کبھی بھی اپنے انتخابی حلقوں کا رخ نہیں کیا اور نہ ہی ان کے چھوٹے بڑے سماجی ومعاشی مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بیشتر انتخابی حلقوں میں عوام کے سماجی حالات انتہائی دگرگوںہیں۔ غربت اور افلاس کے بڑھتے ہوئے سایوں میں وہ خود اور ان کے بچے ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں خوشحالی کا تصور ان کے لئے ایک امید موہوم بن کر رہ گیا ہے۔
دوسری طرف ان ارکان پارلیمنٹ اور سینیٹ کو اس سے غرض نہیں ہے کہ ان کے انتخابی حلقوں میں عوام کیسی تکلیف دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ سیاست دان ان ہی کے ووٹوں سے مسند اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں، جبکہ اقتدار میں آنے کے بعد انہی کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک روا رکھا جاتاہے، یہ بیچارے اپنے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک کے خلاف احتجاج بھی نہیں کرسکتے۔ اگر کسی نے ایسی جرأت کی تو پھر اس کومزید مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بیشتر انتخابی حلقوں میں عوام کی فلاح وبہبود کے زمرے میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوئے ہیں، حالانکہ ارکان پارلیمنٹ کو ان کے حلقوں میں سڑک ، سکول اور صحت کے شعبے کو بہتر بنانے کے لئے وافر فنڈز مہیا کئے جاتے ہیں، لیکن یہ فنڈز مال غنیمت سمجھ کر ذاتی اور گروہی تصرف میں لاکر حق داروں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا جاتاہے، یہ ایسی کرپشن ہے جس کی کوئی پکڑ بھی نہیں ہوتی، ویسے بھی پاکستان میں سیاسی اشرافیہ کے کچھ افراد کرپشن کے زمرے میں عدالتوں کا سامناضرور کرتے ہیں، لیکن سزا نہیں ہوتی اس طرح سزا نہ ملنے کی صورت میں وہ اپنی مکروہ چالوں کے ساتھ کرپشن کے نئے میدان تلاش کرتے ہیں اور نت نئے طریقے اختیار کرکے عوام کے علاوہ مملکت خدا داد پاکستان کو وسائل سے محروم کرکے کمزورترین سطح پر لے آرہے ہیں،جیسا کہ اب نظر آرہا ہے کہ یہ معاشرے کی بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ یہاں حقیقی معنوں میں احتساب کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے، طاقتور مگر کرپٹ سیاسی اشرافیہ اور نوکر شاہی اپنے تعلقات اور روائتی مکرو فریب کے ذریعے احتساب سے بچ جاتے ہیں، بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ احتساب کے اداروں میں ایسے افراد کو ملازمتیں دی جائیں جو پہلے ہی سے کرپشن کے سلسلے میں اپنا نام ومقام پیدا کرچکے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کا بہت بڑا المیہ ہے کہ کرپٹ عناصر معاشرے میں با اثر ہونے کے ساتھ ساتھ ''با عزت‘‘ بھی ہیں، ان پر انگلیاں اٹھانے والوں کی انگلیاںکاٹ دی جاتی ہیں، پاکستان کے ان معروضی صورتحال کے پیش نظر جبکہ ملک میںکرپشن اور لوٹ مار کا راج ہے، وفاقی کابینہ نے ارکان پارلیمنٹ اور سینیٹ کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں جو اضافہ کیا ہے وہ افسوس کی بات ہے کیونکہ ملک قرضوں میں جکڑا ہواہے، قومی معیشت کی ترقی کا گراف اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے، برآمدات مسلسل گررہی ہیں، غیر ملکی سرمایہ گزشتہ کئی سالوں سے اس طرح نہیں آیا جیسے پہلے آتا تھا۔ کیونکہ ہر طرف کرپشن کے پھیلے ہوئے عفریت نے مقامی اور غیر مقامی سرمایہ کاروں کے ذہنوں میں خوف پیدا کردیا ہے کہ ہمارا خون پسینے سے کمایا ہوا سرمایہ مفاد پرستوں کی بھینٹ نہ چڑھ جائے، ارکان پارلیمنٹ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے سبب بہت خوش وخرم ہیں تو دوسری طرف عوام اپنی روز مرہ ضروریات پوری نہ ہونے کے سبب اپنے بچوں کو فروخت کررہے ہیں، یا پھر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں اشرافیہ طبقے کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا غریب عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ فوری طور پر عوام کو ریلیف دینے کے لئے اقدامات کا اعلان کرنا چاہیے کیونکہ یہی عوام ان حکمرانوں کو اقتدار میںلاتے ہیں اور پھر انہی کو حکمران بھول بھی جاتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وزیروں کی تنخواہوں میں اضافہ کی بجائے حکومت مہنگائی میں کمی کا اعلان کرتی۔ عوام کو سبسڈی دیتی۔ ان کو سستی اشیافراہم کرنے کا اہتمام کرتی۔ عوام کی برداشت کا امتحان لینا حکومت کے لئے سود مند نہیں کیونکہ آئندہ الیکشن میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور عوام کا غصہ حکومت بہا کر بھی لے جا سکتا ہے۔ عوام کو لالی پوپ دینے کی بجائے ان کے مسائل حل کئے جائیں تو یہی عوام حکمرانوں کو سر پر بٹھا سکتے ہیںلیکن یہ بات حکمران کیسے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہ تو اقتدار کے نشے میں اس قدر کھوئے ہوئے ہیں کہ انہیں اپنے قریبی وزرا اور ارکان اسمبلی کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔