میری ٹائم سکیورٹی کانفرنس

اس سال پھر گوادر جانا ہوا۔ تقریب میری ٹائم انٹر نیشنل سکیورٹی کانفرنس کا انعقاد تھا جس میں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے ذمہ دار افراد نے شرکت کی۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے نامور سرمایہ کار بھی موجود تھے جو گوادر پورٹ کے ارد گرد سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ گوادر پورٹ کی تعمیر کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ چین کے شہر کاشغر سے ٹرکوں کے ذریعے برآمدات کا سامان لے کر گوادر پہنچا، جہاں اس سامان کو جہاز میں جدید کرینوں کے ذریعہ لادا گیا، پھر یہ جہاز مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے لئے روانہ ہوگیا۔ یہ سی پیک کی بہت بڑی کامیابی ہے جس کا سہرا پاکستان نیوی کے علاوہ بری فوج کے جوانوں کو جاتا ہے، جنہوں نے بحفاظت اس سامان کو کاشغر سے گوادر کی بندرگاہ تک پہنچایا۔
گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور اب اس کا بتدریج استعمال پاکستان کی اقتصادی ترقی کے نئے دروازے کھول رہا ہے۔ گوادر بندرگاہ سے بلوچستان کے صوبے کو بھی ترقی کے مواقع ملیں گے اور یہاں کے باشندوں کو روزگار کے بے پناہ مواقع میسر آئیں گے، بلکہ اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ 
جیسا کہ بالائی سطورمیں عرض کیا مجھے گوادر میں میری ٹائم سکیورٹی انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لئے دعوت دی گئی تھی۔ اس اہم اور بر وقت کانفرنس کا اہتمام پاکستان نیوی نے کیا تھا، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گوادر پورٹ کو فعال بنانے اور اس کی حفاظت کا انحصار بھی پاکستان نیو پر ہے۔ اس کانفرنس میں مندوبین کو جہاں اس اہم بندرگاہ کی افادیت اور خطرات سے 
آگاہ کیا گیا، وہاں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ بعض ممالک، خصوصیت کے ساتھ بھارت گوادر پروجیکٹ کو سبوتاژ کرنے کے لئے مقامی ایجنٹوں کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا بلکہ کر رہا ہے۔ بلوچستان میں ایسے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں جو پہلے ہی سے اس صوبے میں قتل وغارت گری اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے لئے سرگرم ہیں؛ تاہم ایف سی اور پاکستان کی بری فوج کے جوان گوادر کی بندرگاہ کو محفوظ بنانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ان کی بہتر کارکردگی اور موجودگی سے گوادر کے علاوہ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں قانون کی عمل داری کے سلسلے میں بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے؛ تاہم ابھی تک ان تخریب کاروں اور ''را‘‘ کے ایجنٹوں کی جانب سے خطرات موجود ہیں، خصوصیت کے ساتھ کوئٹہ، تربت اور آواران وغیرہ میں، جہاں یہ عناصر اپنے مخالفین کو قتل کرنے یا پھر ان کو اغوا کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ گوادر کی بندرگاہ کی فعالیت کی وجہ سے ترقی کے جو نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں، ان کی وجہ سے تخریب کاروں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ لوگ ہتھیار پھینک کر ترقی کے سفر میں شامل ہونا چاہتے ہیں تاکہ باعزت زندگی کا آغاز ہو سکے۔ صوبائی حکومت بھی ان کی مدد کر رہی ہے۔ 
گوادر بندرگاہ کے سامنے کئی چیلنجز ہیں، جن میں سب سے بڑا یہ ہے کہ کس طرح اس کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھا جائے۔ پاکستان نیوی اس بند ر گاہ کو فعال بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے، اس اہم ذمہ داری میں پاکستان کی بری فوج اس کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے، پاکستان کی فضائیہ بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کر رہی ہے۔ اس طرح گوادر کی بندرگاہ کو تحفظ دینے میں پاکستان کی تینوں مسلح افواج ایک پیج پر ہیں۔ دراصل گوادر پاکستان، چین اقتصادی راہداری کا گیٹ وے ہے اور One Belt, One Roadکا تخیل بھی گوادر کی بندرگاہ سے وابستہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں گوادر کی اہمیت و افادیت سے بخوبی واقف ہیں اور اس ضمن میں ان کا ہر سطح پر تعاون جاری ہے۔
اس بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح وزیراعظم میاں نواز شریف کو کرنا تھا، لیکن وہ بعض ذاتی وجوہ کی بنا پر نہیں آ سکے۔ شرکا کو بتایا گیا کہ موسم کی خرابی کے باعث ان کا جہاز پرواز نہیں کرسکا؛ چنانچہ وزیراعلیٰ بلوچستان جناب ثناء اللہ زہری نے با قاعدہ اس کانفرنس کا افتتاح کیا۔ اپنی افتتاحی تقریر میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی حکومت سی پیک کا کومیاب بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے گی، بلکہ کر رہی ہے۔ اس عظیم اقتصادی منصوبے کو درپیش چیلنجز سے صوبائی حکومت بخوبی آگاہ ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے ہر قسم کا تعاون دینے لئے تیار ہے۔ گوادر بندرگاہ اور اس کے اطراف میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقع میسر ہیں، جس سے پاکستان کے سرمایہ کاروں کو بھرپور فائدہ اٹھانا اور بلوچستان کے عوام کی معاشی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے۔ 
اپنے کلیدی خطاب میں پاکستان نیوی کے سربراہ ایڈمرل محمد ذکاء اللہ (نشان امتیاز ملٹری) نے کہا کے میری ٹائم سیکورٹی سے متعلق اس بین الاقوامی کانفرنس کا مقصد یہ ہے کے شرکا کو پاکستان چین اقتصادی راہداری کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہ پروجیکٹ کس طرح پاکستان کے علاوہ اس خطے کے ممالک کے لئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ گوادر بندرگاہ سی پیک کا اہم ستون ہے، اس کی حفاظت اور فعالیت کی ذمہ داری بنیادی طورپر پاکستان نیوی کے ذمہ ہے، جو اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے تمام اسٹاک ہولڈر کے ساتھ مل کر پوری کر رہی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے سمندری حدود کا تحفظ اور لنگیانی کی تمام تر ذمہ داری پاکستان نیوی پوری کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس میں پاکستان کی بری فوج کا بھر پور تعاون اسے حاصل ہے۔ انہوں نے بڑی وضاحت سے بتایا کہ جب تک پاکستان کی سمندری حدود محفوظ نہیں ہوں گی اس وقت تک نہ تو پر امن انداز میں سمندر کے راستے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت ہوسکتی ہے اور نہ ہی مستقل بنیاد پر ترقی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ پاکستان نیوی تمام اسٹیک ہولڈروں کو یہ پیغام دنیا چاہتی ہے کہ پاکستان نیوی کو بحر ہند میں اپنی ذمہ داریوں کا بھر پور احساس ہے اور یہ درپیش چیلنجزکا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ بھارت بحر ہند میں گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر سے اپنی ''اجارہ داری‘‘ کو خطرہ محسوس کر رہا ہے؛ چنانچہ بھارت گوادر کی بندرگاہ کی ترقی اور اس کی فعالیت کو سبوتاژ کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ ہم گوادر کے سلسلے میں بھارت کے ان ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
میری ٹائم سیکورٹی کانفرنس میں بھارت کے علاوہ بحرہند میں دیگر ممالک کی نیوی کی موجودی پر بھی بحث کی جائے گی، تاہم پاکستان اور چین، بھارت کے اس دعویٰ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ بحر ہند بھارت کا حصہ ہے اور اس کی نیوی کو اس وسیع سمندر میں گشت کرنے یا یہاں کے وسائل کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ پاکستان سمیت ہر پر امن ملک بحرہند میں موجود وسائل سے استفادہ کر سکتا ہے، اجارہ داری کا خیال بحرہند میں کشیدگی کو جنم دے گا جو اس خطے میں امن کے لئے زبردست خطرہ کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان کی نیوی بحرہند میں اپنی موجودگی کے ذریعہ تمام تر خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے اور امن کے قیام کے لئے اپنا کرداربھی ادا کرنا چاہتی ہے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں