سابق صدر جناب آصف علی زرداری خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے 23 دسمبر کو کراچی آ رہے ہیں۔ ان کی آمد سے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ٹارزن کی واپسی ہو رہی ہے۔ ہم بچپن میں بڑے شوق سے ٹارزن کی کہانیاں پڑھا کرتے تھے اور محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ ٹارزن کے دلیرانہ کارناموں سے ہم بے حد متاثر بھی ہوا کرتے تھے۔ جنگل کے جانور بھی ٹارزن سے محبت کرتے تھے، اور ظالم جانوروں اور آدمیوں کے خلاف مہم جوئی میں اس کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔ کچھ ایسا ہی جناب آصف علی زرداری کے حوالے سے محسوس ہو رہا ہے‘ گویا یہ ٹارزن کی صورت میں واپس وطن آ رہے ہیں، حالانکہ آصف علی زرداری ٹارزن نہیں ہیں‘ نہ ہی ان میں ٹارزن جیسی بہادری اور حوصلہ مندی نظر آتی ہے۔ وہ یقینا ایک چالاک اور گہری سوچ والے ذہن کے مالک ہیں‘ جیسے سندھ کے ایک نامور سیاست دان جناب جام صادق مرحوم ہوا کرتے تھے۔ زرداری صاحب کے استقبال کی تیاریوں سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ گویا وہ عوام میں بہت زیادہ مقبول اور لوگوں میں ہر دلعزیز ہیں اور سندھ کے عوام ان سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جیسے وہ شہید بے نظیر بھٹو سے کیا کرتے تھے، لیکن سندھ کے عوام کی اکثریت‘ خصوصیت کے ساتھ سندھ کا دانشور طبقہ ان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتا۔ اس کی کئی وجوہ میں سے ایک اپنے دور حکومت میں عوام کا مناسب انداز میں خیال نہ رکھنا بھی ہے۔ انہوں نے اپنی پانچ سالہ صدارت کے دوران ملک کے وسائل کو اپنے لئے‘ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے جس طرح لوٹا‘ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں محفوظ ہے، اور پڑھنے والوں اور سیاسی شعور رکھنے والوں کے لئے دکھ اور تکلیف کا باعث ہے کہ قومی وسائل کو کس بے دردی سے لوٹا گیا۔ ان کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ زرداری صاحب دنیا کے امیر ترین آدمی بننا چاہتے ہیں، اسی لئے انہوں نے محنت کرنے یا صاف ستھری سیاست کرنے کے بجائے کرپشن کا سہارا لیا، جس کی مدد سے اب ان کا شمار پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے، لیکن اس منزل تک پہنچے کے لئے انہوں نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ انہیں اپنی ساکھ اور وقار قربان کرنا پڑا ہے۔ اب وہ پاکستان واپس آ رہے ہیں۔ آنے سے پہلے انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف سے علیک سلیک کی ہے، اور جب انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ انہیں اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی کی پاداش میںکچھ نہیں کہا جائے گا‘ تو انہوں نے اپنے بیٹے بلاول زرداری کے ذریعہ یہ اعلان کرا دیا کہ 23 دسمبر کو ان کی پاکستان واپسی یقینی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ان کی آمد سے سیاسی ہلچل میں اضافہ ہو گا۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ یقینا ہو گا کیونکہ وہ سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور ظاہر ہے کہ پاکستان واپس آ رہے ہیں تو اپنے اس فن کو باقاعدہ استعمال بھی کریں گے، اور پی پی پی کو بلاول زرداری کی مدد سے پاکستان کے عوام‘ خصوصیت کے ساتھ پنچاب میں مقبول بنانے کی کوشش بھی کریں گے، کیونکہ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کے عام انتخابات میں پنجاب کے عوام کا کردار نہایت ہی اہم ہوتا ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو بھی پنجاب سے پذیرائی ملی تھی، اور انہی (پنجاب کے عوام) کے تعاون سے وہ اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن اب پنجاب ماضی والا پنجاب نہیں رہا‘ یہ بدل چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) وقفے وقفے سے پنجاب کے تعاون ہی سے تیس سال کے طویل عرصہ تک اقتدار میں رہی ہے۔ اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) پنجاب کے چند اضلاع کی مدد سے ملک پر حکمرانی کر رہی ہے، اور پنجاب میں بھی اسی کی حکومت قائم ہے۔ شہباز شریف نے بہ حیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے نمایاں کام کئے ہیں‘ جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) مستحکم ہوئی ہے اور عوام میں اس کی ساکھ مزید بہتر ہو گئی ہے۔ اس کے برعکس پی پی پی کی جڑیں اب پنجاب میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ
قومی حیثیت کی حامل جماعت اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے سکڑ کر سندھ تک محدود ہوگئی ہے اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سندھ تک محدود ہونے کے باوجود یہاں (سندھ) کے عوام کی فلاح کے لئے کوئی نمایاں کام نہیں کر رہی۔ اسی غفلت کی وجہ سے دیہی سندھ میں غربت و افلاس میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ وڈیروں کی استبدادی طاقت اور رعونت میں بھی؛ چنانچہ پی پی پی اپنے ہی صوبے میں عوام کی خدمت کرنے کے سلسلے میں بری طرح ناکام نظر آرہی ہے۔ سندھ کے سرکاری اداروں میں ہر طرف کرپشن نظر آتی ہے۔ شنید ہے کہ ایک بھاری رقم ہر ماہ جناب آصف علی زرداری کو خوش کرنے کے لئے دبئی بھیجی جاتی ہے (دررغ بر گردنِ راوی)‘ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ کے تمام معاملات آصف علی زرداری دبئی میں بیٹھ کر چلا رہے تھے۔ اخبارات میں یہ تمام حقائق مختلف عنوانات سے وقفے وقفے سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود اصلاح کا پہلو نہ ہونے کے برابر ہے۔ پی پی پی کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ خوشامدیوں نے پی پی پی کے مخلص کارکنوں کے لئے دروازے بند کرا دیئے ہیں؛ چنانچہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو چیلنج کر سکیں گے؟ میں نہیں سمجھتا کہ وہ ایسا کر سکیں گے، کیونکہ ان کے اور میاں صاحب کے درمیان درپردہ
گہری تفہیم پائی جاتی ہے۔ پی پی پی نے گزشتہ ساڑھے تین برسوں کے دوران میاں محمد نواز شریف کی حکومت کے لئے کوئی سنگین مسئلہ پیدا نہیں کیا، نہ دھرنوں کی صورت میں اور نہ ہی پارلیمنٹ کے اندر۔ اب اگر آصف علی زرداری مختلف الخیال سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر میاں صاحب کے خلاف گرینڈ الائنس بنانے کی کوشش کریں گے، تو اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے، کیونکہ پاکستان میں اگر حقیقی معنوں میں میاں صاحب کو کوئی سیاسی جماعت Tough Time دے رہی ہے تو صرف تحریکِ انصاف ہے‘ جس کی مقبولیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ عمران خان اگر پی پی پی کے ساتھ گرینڈ الائنس میں شامل ہوتے ہیں تو ان کی مقبولیت کا گراف گر جائے گا، بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ آصف علی زرداری عمران خان کو اپنے ساتھ شامل کرکے جہاں ان کی سیاسی حیثیت کو متاثر کرنے کی کوشش کریں گے، تو دوسری طرف اس صورت میں میاں نواز شریف کے اقتدار کو دوام بخشنے کی بھی کوشش ہو گی، کیونکہ یہ دونوں جماعتیں (پی پی پی اور مسلم لیگ ن) میثاقِ جمہوریت کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتی ہیں۔ یہ اتحاد (میثاقِ جمہوریت) بیرونی طاقتوں کے ذریعہ معروض موجود بھی آیا تھا۔ اس اتحاد کو توڑنا دونوں جماعتوں کے لئے آسان نہیں ہے۔ بہرحال ٹارزن کی واپسی ہو رہی ہے۔ جنگل میں منگل کا سماں ہے‘ شیر، ہاتھی، بندر اور لومڑی سب ان کے استقبال کے لئے جائیں گے۔ کیا خوبصورت منظر ہو گا۔