فلسطین پر نئی قرارداد

23دسمبر2016ء کی تاریخ فلسطین کے عوام کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، اس دن اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اتفاقِ رائے سے یہ کہا گیا کہ اسرائیل مغربی کنارے غزہ کی پٹی اورمشرقی یروشلم میںبستیاں تعمیر کرنا بند کردے۔ امریکہ بہادر نے قرارداد کی مخالفت نہیں کی بلکہ ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہا، یقینا یہ قرارداد اسرائیل کے لئے کسی دھماکے سے کم نہیں ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے قرارداد کو ''شرمناک‘‘ قرار دیتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ جن چودہ ممالک نے اس میں حصہ لیا ہے، ان سے آئندہ نمٹا جائے گا۔ دنیا بھر کے فلسطینیوں نے اس قرار داد پر گہری مسرت اور خوشی کا اظہار کیا ہے اوراس کو تاریخی قرارداد سے منسوب کیا ہے۔ سکیورٹی کونسل کی اس قرارداد سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ اسرائیل ایک توسیع پسند ملک کے علاوہ ایک غاصب ملک ہے جو فلسطین کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکے یہودیوں کے لئے نئی بستیاں تعمیر کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فی الفور مغربی کنارے، غززہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم میں نئی بستیاں آباد کرنا ترک کر دے، اس قرار داد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران جن علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کیا ہے وہ سب ناجائز ہیں، ان کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ اس لئے اسرائیل ان تمام علاقوں کو خالی کردے اور فلسطینی علاقوں میں نئی بستیوں کی تعمیر بھی روک دے۔ اس قرار داد کا متن کچھ یوں ہے۔ 
Reiterates its demand that Israel immediately and completely cease all settlement activities in the occupied Palestinian territory, including East Jerusalem and that it fully respect all if its legal obligations in this regard. اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی یہ ایسی قرارداد ہے جس پر عمل درآمد کیا گیا ( جس کی امید کم ہے) تو یقینا دو ریاستوں کا قیام ممکن ہو سکتا ہے، نیز امن کے امکانات بھی پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن اسرائیل اس پر عمل نہیں کرے گا بلکہ وہ نئے امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر اس قرارداد کے خلاف ایک اور قرارداد لانے کی کوشش کرے گا۔ واضح رہے کہ نئے منتخب صدر ٹرمپ اسرائیل کی طرف خاصا جھکائو رکھتے ہیں، بلکہ انہوںنے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ کہا تھا کہ '' وہ یروشلم کو اسرائیل کا آئندہ دارالحکومت بنانے میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے‘‘۔ موصوف نے یہ بھی کہا تھا کہ ''سارے مشرق وسطیٰ میں صرف اسرائیل ایک جمہوری ملک ہے جہاں سارے فیصلے پارلیمنٹ میں کئے جاتے ہیں‘‘ لیکن اس جمہوری ملک کا دوسرا چہرہ بڑا ہولناک ہے،ہر روز مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوجی کسی نہ کسی بہانے حملے کرکے وہاں کے فلسطینی باشندوں کو ہراساں اور پریشان کرتے رہتے ہیں نیز جو فلسطینی اسرائیل میں روزگارکے سلسلے میں وہاں جاتے ہیں، ان کے ساتھ انتہائی نازیبا اور نامناسب سلوک اختیار کیا جاتاہے، لیکن اسرائیل کے اس غیر انسانی، غیر قانونی اقدامات کی اسرائیلی پارلیمنٹ میں نہ تو آواز آٹھتی ہے اور نہ ہی فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر کو روکنے کے لئے کوئی موثر احتجاج کیا جاتا ہے۔ دراصل اسرائیل مقبوضہ عرب علاقوں میں نئی بستیاں تعمیر کرکے جہاں اپنی حدود کو مزید پھیلا رہا ہے اور توسیع دے رہا ہے، وہیں وہ فلسطین کی جانب سے مزاحمت کرنے والوں کے خلاف فوجی کارروائیاں کرنے سے گریز نہیں کرتا،یہاں تک کہ فلسطینی نوجوانوں کا پیچھا کرتے ہوئے اسرائیلی سپاہی ان کے گھروں میں داخل ہوکر عورتوں اور بچوں کو زدوکوب کرنے سے باز نہیں آتے۔اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر روز مرہ کی بنیاد پر کئے جانے والے تشدد اور بربریت کے باوجود وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم اپنی نام نہاد جمہوریت کے ذریعہ فلسطینیوں کے زمینوں پر قبضہ کررہے ہیں، اور اس عزم کے ساتھ کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ان کے توسیع پسندانہ سامراجی عزائم کو کوئی روکنے والا نہیں ہے، لیکن اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد نے اسرائیلی وزیراعظم کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا ہے اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی مذمت کی ہے،نیز موجودہ حالات میں فلسطینیوں اور اسرائیلوں کے درمیان کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا بلکہ اس علاقے میں تنائو اور کشیدگی بدستور برقرار دہے گی، نیز دوریاستوں کا تصور جس کے لئے ماضی میں یاسر عرفات، امریکی قیادت اور دیگر عرب ممالک نے مل کر کوشش کی تھیں (اوسلومعاہدہ) وہ بھی پورا نہیں ہوسکے گا، حالانکہ اب بھی دوریاستوں کے قیام ہی کے ذریعہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم ہوسکتاہے، جبکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی اس قرارداد میں ایک بار دوریاستوں کے قیام کی طرف واضح اشارہ کیا گیاہے، تاکہ فلسطینی اور اسرائیلی پر امن انداز میں ایک اچھے پڑوسیوں کی طرح زندگی بسر کرسکیں، ایسی قرارداد اس سے قبل سکیورٹی کونسل میں پیش نہیں ہوئی تھی اور اگر پیش ہوتی بھی تھی جس میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی مذمت کی جاتی تھی، تو اس کو امریکہ ویٹو کردیتا تھا، لیکن اس دفعہ امریکہ نے اس قرارداد میںحصہ نہیں لیا بلکہ ''غیر حاضر‘‘ رہا جس کی وجہ سے اسرائیلی وزیراعظم چراغ پا ہوگئے ہیں، انہوںنے اپنے بیان میں امریکہ کی قیادت اور جان کیری کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ انہوںنے جاتے جاتے اسرائیل کی پیٹھ میں چھرا گھوپنا ہے لیکن اسرائیلی وزیراعظم کے مذمتی الفاظ سے مغربی کنارے غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم کے حقائق بدل نہیں سکتے۔ فلسطینیوں کے حقوق اور ان کی جدوجہد کو ساری مہذب دنیا تسلیم کرتی ہے اور ان کی حمایت بھی کرتی ہے، اگر اسرائیل پر امن انداز میں ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے رہنا چاہتا ہے اور جس کا وہ دعویٰ بھی کرتا ہے تو اس کو عرب علاقوں میں نئی بستیاں تعمیر کرنے سے گریز کرنا ہو گا نیز جن جن علاقوں میں یہ بستیاں تعمیر ہوچکی ہیں، انہیں وہاں سے ہٹانا ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کیا اسرائیل اس قرارداد پر عمل کرے گا؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں