برآمدات بڑھانے کیلئے پیکیج

وزیراعظم محمد نوازشریف نے برآمدات کو بڑھانے اوراس شعبے میں مجموعی ترقی دینے کے لئے گزشتہ دنوں 180ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ انہیں امید ہے کہ اس پیکیج سے برآمدکنندگان پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے، اور معیشت کی ترقی کرے گی۔ بہت سے حلقوں کی رائے مگر یہ ہے کہ اس پیکیج سے برآمدات میں خاطر خواہ نہیں اضافہ ہوسکے گا، کیونکہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے یعنی جب سے یہ حکومت برسراقتدار آئی ہے، پاکستان کی برآمدات مسلسل گررہی ہیں، پی پی پی کی حکومت نے جب اقتدار چھوڑا تھا تو اس وقت برآمدات کا کل حجم 25.5بلین ڈالر تھا ، حالانکہ اس وقت بجلی اور گیس کا بحران اپنی جگہ موجود تھا، لیکن اس کے باوجود برآمدات میں اضافہ ہورہاتھا، لیکن پھر 2013ء کے بعد برآمدات میں مسلسل کمی آتی رہی ہے، آج برآمدات کا حجم 19.3بلین ڈالر ہے ، یعنی 6بلین ڈالر کی کمی!جس میں فی الحال اضافہ ہوتا ہوا نظر نہیںآرہا ہے، برآمدات میں کمی کے سلسلے میں، حکومت پر بہت تنقید کی گئی ہے، برآمدکنندگان کا استدلال تھا کہ حکومت نے ری بیٹ کی صورت میں ان کی بہت بڑی واجب الادا رقم دبا رکھی ہے، اگر یہ ساری رقم انہیں مل جائے تو وہ اس رقم کے ذریعہ برآمدات میں اضافہ کرسکتے ہیں تاہم جب حکومت پر اس واجب الادا رقم کے لئے خاصا دبائو پڑا تو تھوڑی سی رقم برآمدکنندگان کو دی گئی ہے، جو ان کی ضروریات کے لئے نا کافی ہے، اب حکومت نے 180ارب روپے کاپیکیج کا اعلان کیا ہے،جس کے ذریعہ برآمد کنندگان ایکسپورٹ میں اضافہ کرسکیںگے، لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے، اتنی جلدی برآمدات میں تمام تر کوششوں کے باوجود اضافہ ممکن نہیں ہوسکتاہے۔ جن ممالک میں پاکستانی برآمدات کی مانگ ہے، وہاں پہلے ہی بھارت، چین، بنگلہ دیش، ویت نام اور ملیشیا موجود ہیں، مقابلہ سخت ہے ، نیز پاکستانی ایکسپورٹرز کا مال کوالٹی کے اعتبار سے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ معیاری نہیں ہوتاہے، اس لئے درآمدکنندگان پاکستانی مال کے بجائے دوسرے ممالک سے مال منگواتے ہیں ، مزید برآں اس پیکیج سے متعلق یہ کہا جارہاہے ، بلکہ اکثر ماہر معاشیات لکھ رہے ہیں کہ میاں صاحب آئندہ انتخابات میں تاجر برادری کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اس پیکیج کا اعلان کیا ہے، ورنہ یہی اعلان اقتدارمیں آنے کے فوراً بعد کیا جاسکتا تھا، تاکہ گرتی ہوئی ایکسپورٹ کو روکا جاسکتا تھا، لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی گئی بلکہ برآمدکنندگان کی ایکسپورٹ کو فروغ دینے کے سلسلے میں تمام تر تجاویزکو بھی سرد خانے میں ڈال دیا گیا جس کانتیجہ یہ نکلا ہے کہ برآمدات کم ہوکر صرف 19بلین امریکی ڈالر رہ گئی ہے، اس سلسلے میں ایک اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ پیکیج صرف اٹھارہ ماہ کے لئے ہے ،اس کے بعد یہ پیکیج خود بخود موخر ہوجائے گا، ظاہر ہے کہ جب گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں برآمدات کا فروغ نہیں ہوسکا ہے، تو پھر اٹھارہ ماہ کی قلیل مدت میں برآمدات کس طرح اور کیسے فروغ پا سکیں گی؟ اس کے علاوہ اس پیکیج میں صرف پانچ شعبوں کو شامل کیا گیا ہے، جس میں یہ پیسہ برآمدکنندگان کو دیا جائے گا، ان پانچ شعبوں میں ٹیکسٹائل ، کھیلوںکا سامان ، چاول ،کارپٹ اور انجینئرنگ کا سامان شامل ہے، ان پانچ شعبوں کو موجودہ حکومت نے پہلے بھی اپنی ٹریڈ پالیسی میں Indentifyکیا تھا، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کیاان پانچ شعبوں سے وابستہ برآمدکنندگان نے برآمدات میں کسی قسم کا اضافہ کیا تھا نہیں؟ بلکہ برآمدات گرتی چلی گئیں۔ برآمدات میں کمی کی وجہ حکومت کا استدلال ہے بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے برآمدات میں اضافہ نہیں ہوسکا حالانکہ پی پی پی کے دور میںبھی بجلی کا بحران موجود تھا، بلکہ لااینڈآرڈر کی صورتحال انتہائی مخدوش تھی، بجلی کا بحران ہنو ز موجود ہے جس پر حکومت نے خاصی تاخیر کے بعد توجہ دے رہی ہے، ایل این جی کی درآمد کی وجہ سے کسی حد تک پنجاب میں گیس کا بحران کم ہورہاہے، لیکن مستقل اور پائیدار بنیادوں میں ابھی مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
برآمدات میں کمی کے ساتھ ساتھ درآمدات میں اضافہ ہورہاہے، اور تجارتی خسارہ بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے، غیرملکی زرمبادلہ کا حجم بھی گر رہاہے، جو تشویش کا باعث ہے، حکومت اپنا روز مرہ کی بنیاد پر کام چلانے کے سلسلے میں بے پناہ اندورنی وبیرونی قرضہ لے رہی ہے،اس وقت تک حکومت نے 33کھرب اور 75ارب روپے کا قرضہ لے چکی ہے، جو کہ ایک اپنی جگہ تاریخی ریکارڈ ہے ، اتنی بڑی رقم کہاں اور کس جگہ خرچ ہوئی کچھ پتہ نہیں؟ یومیہ کئی ارب روپ چھاپے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے افراط زر بڑھتا جارہا ہے، پاکستانی روپے کی قدر ڈالر اور دیگر مضبوط کرنسیوں کے مقابلے میں مسلسل زوال پذیر ہے، معیشت میں اضافے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے، جاپان اور برطانیہ کے اخبارات میں پیسہ دے کر پاکستانی معیشت کی بہتری کے حق میں مضامین شائع کرائے جارہے ہیں، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، خود پاکستان کے مرکزی بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اعتراف کیا ہے، پاکستان کی بڑی صنعتوں کی پیداوار معیار کے مطابق نہیں رہی ہیں، زرعی شعبے میں صرف گنے اور کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، کیا ان معروضی صورتحال کے پیش نظر 180ارب روپے کی مدد سے برآمدات میں اضافہ ہوسکے گا؟ وہ بھی صرف اٹھارہ ماہ کی مدت میں ؟ حکومت کا یہ پیکیج انتخابی مہم کا حصہ ہے جس طرح وہ دیگر کاغذی پروجیکٹ کا افتتاح کرکے غریب اور جاہل عوام کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اس حکومت نے ہر شعبے میں ترقی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں، اس لئے آئندہ انتخابات میں انہی کو ووٹ دیں، کیا خوش فہمی ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں