کئی سوالات ہیں۔ جب اگلے سال نیٹو افواج افغانستان سے رخصت ہوجائیںگی تو یہ ملک کس حدتک امن کی امید کر سکتا ہے ؟کیا امریکہ اتنی سفارتی کوشش کرسکتا ہے جو کابل، اسلام آباد اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کی فضا قائم کرنے کے لیے کافی ہو اور جس کے نتیجے میں اس علاقے میں سیاسی استحکام یقینی بنا یا جا سکے؟کیا امریکہ اور اس کے اتحادی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے علاقائی قوتوں، ایران، بھارت ، چین، روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کے خدشات دور کرتے ہوئے اُنہیں اعتماد میںلے سکتے ہیںتاکہ وہ افغانستان میں مداخلت کرتے ہوئے اپنا کھیل نہ کھیلنا شروع کردیں؟ اس سے افغانستان،جس کا مستقبل ہنوز غیر یقینی ہے، مزید خرابی کا شکارہوجائے گا۔ کئی ماہ سے امریکی میڈیا اس الجھن کا شکار رہا ہے کہ افغانستان میں موجود ایک لاکھ کے قریب امریکی اور نیٹو فوجی دستوں کے انخلا کا واضح ٹائم ٹیبل کب دیا جائے گا اور کیا ساڑھے تین لاکھ جوانوں پر مشتمل افغان فوج اور پولیس میں اتنی جان ہے کہ وہ طالبان کا مقابلہ کر سکیں اور یہ کہ جب امریکی لڑاکا دستے وہاںسے نکلیں گے تو افغان فورسزکوانسداد ِ دہشت گردی کی تربیت دینے کے لیے کتنے فوجی وہاں رہیں ؟ اگرچہ امریکہ میں اس جنگ کو ناپسند کیا جارہا ہے اور یہ امریکی ٹیکس دہندگان پر غیر ضروری بوجھ سمجھی جارہی ہے لیکن پنٹا گان انخلا کے لیے طویل ٹائم ٹیبل دینا چاہے گا۔ وہ یک لخت انخلا کی بجائے فوجی دستوں کو بتدریج نکالنا چاہے گا ۔ اس کے علاوہ 2014ء کے بعد بھی فوجی قیادت وائٹ ہائوس کی اجازت سے وہاں کچھ فوجی دستے رکھنا چاہتی ہے۔ تاہم یہاں وائٹ ہائوس کا پنٹاگان سے اختلاف دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ نومبر میں فوجی حکام 2014ء کے بعد تیس ہزار فوجی افغانستان میں رکھنا چاہتے تھے لیکن اب وائٹ ہائوس میں مخالفت کے بعد پنٹاگان تعداد کم کرکے دس ہزار تک لے آیا ہے۔ ابھی بھی وائٹ ہائوس چھے ہزار سے زائد فوجی افغانستان میں رکھنے کی اجازت دیتا نظر نہیں آتا۔ جنوری میں صدر کرزئی نے اپنے واشنگٹن کے دورے کے موقع پر کہا تھاکہ فوجی دستوں کی تعداد سے زیادہ افغانستان کو امریکی حکومت کی معاونت کی ضرورت ہے۔ اس میںکوئی شک نہیںہے کہ افغانستان میں امریکی افواج بہت تکلیف دہ حالات کا شکار ہیں۔ گزشتہ سال اتنے امریکی فوجی براہ ِ راست جنگ میں ہلاک نہیںہوئے جتنوںنے خود کشی کر لی۔ اس وقت تک بیس ہزار سے زائد فوجی زخمی ہیںاور جو جنگ کی سختی کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں،ان کی تعداد بھی ہزاروں میںہے۔ گزشتہ برس ساٹھ سے زائدامریکی اور نیٹو فوجی اپنے ہی تربیت دیے ہوئے افغان فوجیوں کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر چہ وہ کئی سال افغان فوجیوںکے ساتھ، اس ملک میں گزار چکے ہیںلیکن وہ ان پر مکمل اعتماد نہیںکر سکتے ۔ عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں کے مضمرات امریکیوںکی کئی نسلوںکے بعد ہی دور ہو ں گے۔ یہ بات زیادہ حیران کن نہیں کہ زیادہ تر افغان باشندوںکے لیے امریکہ اور نیٹو کی طرف سے ترتیب دی گئی نام نہاد ’’انتقال ِ اقتدار ‘‘ کی پالیسی اپنے لیے انخلا ممکن بنانے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں، کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیںکہ امریکہ میں سیاست دان اور عوامی نمائندے جلد از جلد انخلا پر زور دے رہے ہیں۔ اس پس ِ منظر میں افغان باشندے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ مغربی افواج یہاں سے نکلنے کا بہانہ تلاش کر رہی ہیں، اُن کو افغانستان کے مستقبل اور اس میں جمہوری اور پرامن قدروں پر مبنی معاشرے کے قیام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کچھ سوچ سمجھ رکھنے والے افغان شہری اس بات کی تفہیم رکھتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ میں اس جنگ سے اکتاہٹ صرف وہاں جاری معاشی بحران کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ دراصل اُن کو افغان قیادت کی نااہلی اور بدعنوانی نے مایوس کر دیا ہے۔ وہ جانتے ہیںکہ ان کی جتنی بھی مدد کی جائے، نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی ہو گا۔ اسی دوران جبکہ امریکی اور نیٹو افسران ’’سب اچھا ہے‘‘ کے بیانات داغ رہے ہیں، طالبان فوجی تنصیبات پر زیادہ شدت اور بے خوفی سے حملے کر رہے ہیں اور فوجیوں کا جانی نقصان بڑھ رہا ہے۔ اس وقت واشنگٹن میں افغانستان میں باقی رکھے جانے والے فوجیوں کی تعداد پرکی جانے والی بحث بے محل ہے کیونکہ اس سے افغانستان کو درپیش مسائل میںکوئی کمی واقع نہیںہوگی، اور جب تک وہ مسائل حل نہیںہوں گے، پرا من انخلا اور افغان فورسز کو ذمہ داری سونپنے کی نوبت نہیںآئے گی۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ یہ ہونا چاہیے کہ طالبان ، امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع کیا جاسکے تا کہ نیٹو افواج کو اس جنگ کے جہنم زار سے باعزت واپسی کا راستہ مل سکے۔۔۔ جو اب مذاکرات کے بغیر ممکن نہیںہے۔ پنٹاگان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر وہ چاہتے ہیںکہ یہاں سے لڑتے ہوئے ’’پرامن ‘‘ طریقے سے نکلیں تو ایسا نہیںہو گا اور نہ ہی اس طرح افغانستان امن و استحکام کے راستے پر چل سکے گا۔ امریکہ کو آخر کار علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر کسی سیاسی سمجھوتے تک پہنچنا ہی پڑے گا۔ اس مسئلے کا دوسرا سب سے اہم پہلو صدر حامد کرزئی کو یہ بات سمجھانا ہے کہ وہ اگلے سال پانچ اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات کا آزادانہ اور منصفانہ انعقاد یقینی بنائیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا اور ، جیسا کہ2009ء کے انتخابات میں دہاندلی کے سنگین الزامات سامنے آئے تھے، تو افغانستان میں کثیر الجہتی خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ اس وقت افغان اپوزیشن جماعتوں اور شمال اور مغربی علاقوںکے غیر پشتون قبائل کو کرزئی صاحب پر اعتماد نہیںہے۔ اب صورت ِ حال یہ ہے کہ کرزئی صاحب ایک پشتون ہیں اور طالبان بھی اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ چونکہ افغان آئین کے تحت وہ تیسری مدت کے لیے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے، اُنہیں ایک ایسے امیدوار کی تلاش ہے جو اُ ن کی اقتدار سے رخصتی کے بعد اُن کی اور ان کے خاندان کی حفاظت کی ضمانت دے سکے۔ 2009 ء میں بھی غیر پشتون دھڑوںنے محسوس کیا تھا کہ کرزئی صاحب نے اُنہیں چکما دے کر انتخابات کو یرغمال بنا لیا ہے لیکن وہ امریکی دبائو کی وجہ سے اُن کے خلاف محاذ قائم کرنے سے باز رہے۔تاہم اب وقت بدل گیا ہے اور اگر اب کوئی ایسی صورت ِ حال پیدا ہوئی تو آرام سے نہیں بیٹھیںگے۔ اطلاعات ہیں کہ اس ملک، جو پہلے ہی ہر قسم کے اسلحے سے بھراہوا ہے، میںجنگجو سردار انتخابی تیاریوںکے لیے ہتھیار اور جنگجو دستے جمع کر رہے ہیں۔ ایسی کشیدہ صورت ِ حال میں انتخابات میں ہیرا پھیری کرنے کی کوئی بھی کوشش بارود کے ڈھیر کو دیا سلائی دکھانے کے مترادف ہو گی۔ تیسری بات یہ ہے کہ پاکستان، جہاں زیادہ افغان کمانڈروں کی پناہ گاہیں ہیں، بھی اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی بجائے افغان حکومت اور امریکہ سے تعاون کرے اور اپنے زیر ِ اثر طالبان کو سمجھائے کہ وہ اپنی ، نہ کہ پاکستان کی، شرائط پر کابل سے بات چیت کریں۔ اس کے علاوہ افغان فوج کے اخراجات اور ملک کی اقتصادی صورت ِ حال بہتر بنانے کے لیے مغربی طاقتوں اور بین الاقوامی برادری کا فرض ہے کہ وہ درکار فنڈز کی فراہمی یقینی بنائیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے اب امریکہ کو فوجی طاقت کی بجائے سفارت کاری میں مہارت کی ضرورت ہے۔ فوجی طور پر وہ طالبان کو مکمل طور پر دبانے میں ناکام رہے ہیں ،اب دیکھنا ہے کہ سفارتی محاذ پر اُن کی کوششیں کس حد تک بار آور ثابت ہوتی ہیں۔