انتخابات کے حوالے سے کچھ سوالات

اس وقت جب ملک میں انتخابات کا معرکہ سجنے کو ہے، تشدد کی لہر نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گزشتہ جمعے کو سابق وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش کرنے والے پراسیکیوٹر، چوہدری ذوالفقار علی کو لاہور میں ہلاک کر دیا گیا۔ ایسے اہم سرکاری افسر کو اس طرح دن دیہاڑے گولی کا نشانے بنانے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ پاکستان کے بڑے شہر بھی قاتلوں کی زد میں ہیں۔ بہرحال یہ قتل دہشت گردی کی اُس لہر سے تعلق نہیں رکھتا جس کی لپیٹ میں انتخابات کے موقع پر ملک کی اہم سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہ جماعتیں اپنے نظریات کے اعتبار سے لبرل، سیکولر یا نیم سیکولر ہیں ۔ ہا ں اگر چوہدری ذوالفقار علی دہشت گردی کے کسی ایسے واقعے ، جیسا کہ بھارت میں ہونے والے ممبئی حملے یا پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی تفتیش کررہے ہوتے تو ان کے قتل کو دہشت گردی کے پس ِ منظر میں دیکھا جا سکتا تھا ۔ بہرحال اس قتل کے مضمرات آنے والے دنوںمیں سامنے آئیں گے۔ اس وقت سب سے تشویش ناک بات کچھ سیاسی جماعتوں کو خصوصی طور پر انتخابی سرگرمیوںسے روکنا نظر آتا ہے۔ جو جماعتیں دہشت گردوں کا خصوصی ہدف ہیں، وہ سابقہ حکمران جماعت پی پی پی ، اے این پی اور ایم کیو ایم ہیں۔ طالبان نے عہدکر رکھا ہے کہ وہ ان جماعتوں کو مٹا کر دم لیںگے۔ اُن کا ارادہ ہے کہ یہ جماعتیں موجود ہ انتخابات میں جو ملکی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہیں، آگے نہ آئیں۔ ان حملوں میں گزشتہ اپریل میںسو سے زائد افراد، جن میںانتخابی امیدوار، ان کے حامی اور عام شہری شامل تھے، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ تین سو سے زائد زخمی ہوئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کارروائیوں کا چند روز بعد ہونے والے انتخابات پر کیا اثر ہو گا ؟ کیا یہ حملے پی پی پی ، اے این پی اور ایم کیو ایم کو سیاسی طور پر نقصان پہنچا رہے ہیں ؟ ان حملوں کے نتیجے میں ملک کے شمال مغربی حصوں میں ووٹنگ آزادانہ ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ خدشہ ہے کہ یہاں سے انتہا پسند تنظیموںکے حمایت یافتہ امیدوار جیت کر اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہو جائیںگے۔ لبرل اور سیکولر جماعتوں کے حامی ، جو ان دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، گھروںسے نکل کر ووٹ ڈالنے کی جرأت نہیں کریںگے؛ چنانچہ سیاسی پنڈتوںکے دعووں کے برعکس ووٹنگ ٹرن آئوٹ کم رہنے کی توقع ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ دہشت گردوںکے عزائم کیا ہیں لیکن ان کے سامنے تمام ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ وہ جس کو چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں اپنا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ ان حالات میں ملک کے بعض حصوں میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے باہر نکلنا یقینا بچوں کا کھیل نہیں ہوگا۔ اس وقت پاکستان میں جو عجیب منظر نامہ تشکیل پارہا ہے وہ یہ ہے کہ چاروں صوبوںمیں سے صرف پنجاب نسبتاً پر سکون ہے اور تمام تر انتخابی مہم یہیں جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے سابقہ وزیر ِ اعلیٰ پر‘ جو اب اہم انتخابی امیدوار ہیں، الزام لگایا جاتا ہے کہ اُنھوں نے کچھ انتہا پسند تنظیموںسے مفاہمت کی تھی کہ پنجاب کو تشدد سے محفوظ رکھا جائے؛ چنانچہ تینوں چھوٹے صوبے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس وجہ سے وہ نہایت اشتعال کے عالم میں ہیں کہ وہ دہشت گردوں کا ہدف ہیں جبکہ بڑے صوبے میں مخصوص جماعتیں اپنی مہم آسانی سے چلا رہی ہیں۔ اب صورت ِ حال یہ ہے کہ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) انتخابات جیت جاتی ہے تو اب ہونے والی دہشت گردی کو بہت معنی خیز نظروںسے دیکھا جائے گا۔ لوگ اس بات کے بہت سے مطالب نکالیںگے کہ انتخابی مہم کے دوران تینوں چھوٹے صوبوںمیں بہت سے لوگ ہلاک ہوگئے جبکہ پنجاب میں امن رہا اور یہاںکی جماعت جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔ خدشہ ہے کہ اس سے صوبائی عصبیت کی لکیر مزید گہری ہو گی۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے درکار اتفاق ِ رائے نہیںپا یا جاتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابات ہونے کے بعد دہشت گردی ختم نہیں ہو جائے گی، بلکہ اس میں مزید شدت آئے گی اور نئی منتخب ہونے والی حکومت کو نشانہ بنایا جائے گا۔ فی الحال کوئی سیاسی جماعت اس عفریت سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح پالیسی نہیں رکھتی۔ اس طرح معاشی بدحالی پر بھی، جو پاکستان کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے، اتفاق ِ رائے نہیںپایا جاتا۔ یہ مسئلہ شاید دہشت گردی سے بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ بین الاقوامی برادری میں پاکستان کے ذمے واجب الاداقرضہ جات کی واپسی کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ نئی منتخب ہونے والی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہوگا۔ فی الحال انتخابی مہم کے دوران کسی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما کی طرف معاشی پالیسی یا امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں قیام ِ امن کی ضرورت اوراس میں پاکستان کے کردار پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ درحقیقت بہت کم جماعتوں کو ان مسائل کا ادراک ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات میں ایک اہم تبدیلی یہ آئی کہ امریکہ نے خود کو پاکستان کے داخلی حالات سے لا تعلق کر لیا۔ یہ ایک اچھی پالیسی ہے کیونکہ پاکستان میں مغرب اور امریکہ کے خلاف جذبات بہت شدید ہیں۔ صورت ِ حال یہ ہے کہ کچھ دائیں بازو کی جماعتیں مغربی قوتوں کو للکارتے ہوئے بنیاد پرستوںکی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس پس ِ منظر میں امریکی افسران کی طرف سے پاکستان آکر ان کو لیکچر دینا کہ اُنہیں کیا کرنا چاہیے،صورت ِ حال کو مزید بگاڑ دیتا؛ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ پاکستانیوںکو خود ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ایسا کرتے ہوئے جذباتی نعروں کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں اور اُن لوگوں کو منتخب کریں جو ملک کی معیشت اور خارجہ پالیسی کے تقاضوں کا فہم رکھتے ہوں۔ گزشتہ انتخابات سے تھوڑی دیر پہلے قتل ہونے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کے کیس کی تحقیقات کو سرد خانے میں ڈالا جا چکا ہے۔ اگرچہ گزشتہ پانچ برس سے اُن کی جماعت، پی پی پی، اقتدار میں تھی لیکن اُن کے قاتلوں کو منظر ِ عام پر لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ جہاں تک پرویز مشرف کیس کا تعلق ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ دیر کے بعد وہ بھی ایک ہائی پروفائل سیاسی کیس کی طرح سردخانے میں ڈال دیا جائے گا۔ میرا نہیں خیال کہ سابقہ صدر اور آرمی چیف کو عدالت کے روبرو کھڑے ہوکر کسی سوال کا جواب دینا پڑے گا۔ قیاس اغلب ہے کہ آنے والی حکومت اُن کو ’’کسی ‘‘ کی سفارش پر جلا وطن کر دے گی۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیںہے کہ کسی سیاسی جماعت نے مشرف کی گرفتاری اور سزا کو سیاسی موضوع نہیں بنایا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی ارباب ِ سیاست کو بہت سے معاملات کا ’’اندازہ‘‘ ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں